شیکھر گپتا
یکم مئی کو شائع ہونے والے اس کالم کا عنوان اتفاقی طور پر ایسا ہو گیا ۔ یہاں الفاظ کا کھیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان آج جس بحران میں پھنس گیا ہے ، اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاسکتی ہے۔ وہ آکسیجن سے لے کر N-95 ماسک تک اور آکسیمٹر سے لے کر ویکسین تک تمام چیزوں کے لئے بڑے ممالک سے مدد لے رہا ہےاور یہ تمام چیزیں لے کر جب بہت بڑا مال بردار طیار ہ ہماری سرزمین پر اترے گا تب ہمارے تمام مرکزی وزیر خوشی سے ٹویٹ کر رہے ہوں گے ۔ ابھی کچھ ہفتہ پہلے تک وہ اس امکان کو بڑی نفرت سے خارج کررہے تھے کہ ہمارے ’نیو انڈیا‘ کو غیر ملکی مدد کی ضرور ت پڑسکتی ہے۔
ہم کوئی شرط جیتنے کا دعویٰ نہیں کررہے ہیں ، ہم یہ نہیں کرسکتے کیونکہ ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ در حقیقت اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے کہ اس خوفناک قومی آفت میں ، حکومت نے بیرون ملک سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یوروپی یونین اور برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ ہندوستان کی درخواست پر ایکشن لے رہے ہیں۔ برطانیہ سے اس کے ‘’فارن ، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس‘ (ایف سی ڈی او) کے ذریعے اور ‘امریکہ سے’ یو ایس آئی ڈی‘کے توسط سےمدد آرہی ہے۔ مودی سرکار کے وزراء اسے مشترکہ اقدار ، دوستی وغیرہ کی واضح مثال کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یہ ہم نے اپنے چھوٹے شہر میں گھر میں چینی ختم ہوجانے پر پڑوسی کے گھر سے کٹوری بھر چینی بے جھجھک ادھار لیتے ہوئے سیکھا ہے۔ آخر پڑوسی کو بھی ایسی ضرورت پڑتی ہی تھی۔
آج ہماری حالت گھر میں ختم ہونے والی چینی کی حالت سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ جب عمران خان اور شی جن پنگ بھی دل کھول کر آپ کی مدد کے لئے آگے آرہے ہیں ، تو آپ کو سمجھنا چاہئے کہ آپ اندھی گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ وہ جو پیغام دے رہے ہیں اسے سمجھیں۔ ایک ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم جو دکھاوا کرتے رہے ہیں ، دراصل ہم اتنی بڑی طاقت نہیں ہیں۔ دوسرا ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم اس علاقے میں کہاں کھڑے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ باہمی تعاون کے معاملے پر اس برصغیر کے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ تعاون کا مسئلہ واقعتاً کووڈ بحران میں مددگار ہے۔
ہمارے قریبی ہمسایہ ممالک کو جسے بھارت اپنا اثر ورسوخ والا علاقہ بناناچاہتا ہے ہمارا پیغام یہی ہے کہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ کووڈ سے لڑنے میں تم سب کو ہماری مدد کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن بھارت کے بھروسے مت رہو۔ فی الحال تو خود اسے دنیا سے مدد کی ضرورت ہے۔
چین یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ آپ نے بھارت سے جن ویکسین کی خوراک اور ادوا کے خرید کے آرڈر دیئےتھے انہیں تو وہ بھیج نہیں پا رہا ہے ۔ ویسے کہاجا رہا ہے کہ میٹنگ میں بھارت کے وزیر خارجہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔ اسے چھڑے کو بے رحمی سے گھمانا ہی کہاجائے گا۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ آپ کے مخالفین آپ کو نہایت ہی احقمانہ اور مہذب سفارتی الفاظ میں طنز کررہے ہیں تو اپنے دوستوں سے مدد لینے اور ان کا شکریہ ادا کرنے میں کوئی حر ج نہیں ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں کہا تھا کہ اوپر سے کم معاشی فوائد کی فراہمی کی حکمت عملی کبھی کامیاب نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی ٹویٹ کیا کہ معیشتیں اب نیچے سے اوپر کی طرف بڑھیں گی اور’ ‘مڈل آؤٹ‘ پالیسی اپنائے گی۔ اس کی سخت مخالفت کی جائے گی اور اتنی ہی سخت دلائل دیئے جائیں گے۔ سیاسی معیشتوں کے معاملے میں اس بحث نے ابدی شکل اختیار کرلی ہے۔
لیکن قیادت کے معاملے میں اوپر سے نیچے تک اثر کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ قیادت کا اثر و رسوخ اوپر سے نیچے تک جاتا ہے۔ اور قائد جو کامیاب ہوتا ہے ، اس کا اثر اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے فتح کا اعلان کرتے ہوئے اس کا جنون براہ راست اپنی ٹیم کے دماغ میں گھس جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یہ جانچ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ہے کہ آیا ویکسین ، آکسیجن ، تندرستی اور یہاں تک کہ پیراسیٹامول کا کافی ذخیرہ موجود ہے یا نہیں۔ ایسا کوئی بڑا ملک باقی نہیں بچا ہے جہاں اس وائرس کی دوسری لہر نہیں آئی ہو۔ ہر ایک جیت کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن جب بحران ایک بار پھر دستک دیتا ہے تو ، وہ سننے سے منع کردیتا ہے۔
دہلی میں انفیکشن شرح ’ ‘الوداع کووڈ‘والی 0.23فیصد سے کوئی راتوں رات 32 فیصد پر نہیں پہنچ گئی۔ چار ہفتہ میں ایسی صورت حال بنی لیکن کیسی کی نند نہیں ٹوٹی۔ بڑے لیڈر انتخاب جیتنے میں مصروف تھے اور جب ملک کو یکجہتی اور مضبوطی کی ضرورت تھی تب وہ ریاستوں کے لیڈروں کی توہین کرنے میں مصروف تھے۔ سرخیاں نیچے تک اثر کرتی رہیں۔
کیرل اور مہاراشٹر میں وبائی مرض پھیلنے کے بعد بھی کوئی بھی نیند سے نہیں جاگا۔ اسے دور کی دو ریاستوں کی پریشانی مان کر چھوڑ دیا گیا۔ اگر ہم یہ امید کررہے تھے کہ ریاستوں کی ہماری سرحدیں ہمیں اس وائرس سے محفوظ رکھیں گی تو ہم خود کو نسل کشی کے لیے پیش کررہے تھے۔ اور بھارت کو اس بحران میں ڈال رہے تھے جس کے سبب اسے چار دہائیوں کے بعد غیر ملکی امداد کی ضرورت تھی۔
لیکن جیت والا ہمارا رویہ ابھی ڈھیلے نہیں پڑے ہیں۔ اگر ہوتا تو ہمیں اس سنگین بحران کے بارے میں غیر ملکی میڈیا میں آنے والی خبروں کے خلاف شکایت کرنے والے اپنے اعلیٰ سفارتکاروں سے شرمندہ نہیں ہونا چاہئے ، یہ صورتحال ہمارے ساتھ کیسے پیش آئی ، جبکہ ہم اس بحران میں انہی ممالک سے بھی مدد کے خواہاں ہیں۔
(بشکریہ ’دی پرنٹ ‘)