تحریر:شاہنواز بدر قاسمی
اس وقت ملک کے موجودہ صورت حال سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں، حالیہ چند برسوں میں مسلمانوں کے تعلق سے حکومت ہند، کئی ریاستی حکومت، عدالت، سیاسی پارٹیاں اور مذہبی تنظیموں کا رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے، ہم جسے وقتی حالات کا نام دے رہے ہیں وہ ایک لاعلاج بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہےاور اس کھیل میں ایسے لوگ سب سے آگے ہیں جو خود کو سب سے بڑا دیش بھگت، وطن پرست،قائد اور رہبرہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔مصلحت پسندی اور دور اندیشی کے نام پر معاملہ حد درجہ خراب ہوچکا ہے، بڑے سے بڑے لوگ اس ملک میں بےبس، لاچار، مجبور اور مایوسی کے شکار ہوچکے ہیں جو یقیناً ہندوستان جیسے جمہوری ملک کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔مسلم ووٹوں کے رحم و کرم پر اپنی سیاست کرنے والے سیکولر لیڈران بھی اب فرقہ پرستی کے شکار ہوچکے ہیں، انہیں مسلم ووٹ تو چاہئے لیکن مسلم مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، اس وقت بھارت میں مسلمانوں کیلئے ترقی سے زیادہ تحفظ ضروری مسئلہ بن گیاہے۔اس ملک کے مسلمان صرف بی جے پی لیڈران سے نہیں بلکہ کئی سیکولر پارٹیوں کےفرقہ پرست لیڈران اور اپنے قائدان کے رویے سے بھی پریشان ہیں۔
ایسے نازک اور مشکل حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے یہ ایک اہم سوال ہے۔ہمیں مایوسی،خوف زدگی اور بزدلی کاشکار ہونے کے بجائے اپنے کام پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا اور ٹی وی شو کے ذریعہ پورے ملک میں نفرت کی جو ہوا پھیلائی جارہی ہے اسے محبت میں بدلنے کیلئے خود آگے آنا ہوگا، اپنے اخلاق، کردار، معاملات اور اپنے رویہ سے برادران وطن کا دل جیتنا ہوگا، مثال دینے کے بجائے مثال بننا ہوگا، نفرت کا جواب نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے دینے کی ضرورت ہے، ہمارے بہت سے جذباتی قسم کے لیڈران اورنوجوان سرخیوں میں بنے رہنے کیلئے ایسے غیرضروری بیانات دیتے ہیں جس کے نقصانات اور اثرات کا انہیں ہرگز اندازہ نہیں ہے، برادران وطن سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کرنا ہوگا یہ صرف کہنے سے نہیں بلکہ کرنے سے ہوگا اور وہ بھی علاقائی سطح پر اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک عام ہندوستانی شہری ہونے کے ناطے ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ آج کا موجودہ ماحول جو اخبارات، ٹی وی ڈیبیٹ اور موبائل کے ذریعہ دیکھایاجارہا ہے اس میں اور حقیقی صورت میں بہت فرق ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان کہلانے کے بجائے حقیقی مسلمان بن کر زندگی جینے کی کوشش کریں، ہم دوسروں کو کوسنے کے بجائے اپنے صفوں میں درستگی اور شفافیت پیدا کریں اور ایک انقلابی قوم بن کر اپنی فیملی کے ساتھ ملک اور سماج کیلئے کچھ بہتر کرنے کا مزاج بنائیں ان شاء اللہ حالات ضرور بدلیں گے، یہ دور اسکینگ کا ہے اصلی اور نقلی کا فرق بہت جلد سمجھ جائیں گے، ہم تعلیم، تجارت، خدمت خلق اور سیاست سے اپنے رشتے کو مزید مضبو ط کریں، اگر ہم اس ملک میں اپنے نسلوں کو خوشحال دیکھناچاہتے ہیں تو روایتی مزاج کو بدلنا ہوگا اور ایک انقلابی انسان ہونے کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا،کسی سیاسی پارٹی، مسلم جماعت یا شخصیت کو اپنی ناکامی کا قصور وار بتانے کے بجائے اب خودآگے بڑھ کر عملی حل تلاش کرنا ہوگا کیوں کہ ہمیں جن چہروں اور جن جماعتوں پراعتماد اور بھروسہ تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی،جب تک ہم کامیابی کیلئے قربانی کا مزاج نہیں بنائیں گے تب تک حالات سے بہتری کی امید کرنا فضو ل ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)