ملک میں جمہوریت کو بچانا ہے تو جمہوریت کے یوپی ماڈل کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ برازیل اور اتر پردیش کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ یہاں80 لوک سبھا کی سیٹیں ہیں، قومی سیاست میں یوپی کا موثر اثرورسوخ ہے، حالانکہ ایس پی – بی ایس پی کے دور اقتدار میں اس میں تھوڑا فرق ضرور دکھاتھا۔
انڈین ایکسپریس میں پرتاپ بھانو مہتا کا کہنا ہے کہ اکثر ہم ’ہندی ہارٹ لینڈ‘ کی بات کرتے ہیں جو جنوب سے ‘’برعکس ‘ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد قومی سیاست میں یوپی کی اہمیت کو ایک بار پھر تازہ کردیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہندوتوا منصوبے میں یوپی اہم رہا ہے۔ اس ریاست میں ایودھیا ، کاشی اور متھرا جیسے مذہبی شہروں کی موجودگی بھی یوپی کو ہندوؤں کی شناخت سے جوڑتی ہے۔ دوسری ریاستیں اس طرح کا معاملہ نہیں ہے ۔
یوپی کے وزیر اعلیٰ الگ الگ کرداروں میں نظر آتے ہیں۔ مطلق العنان فرقہ وارانہ ماڈل سے ان کی پہچان ہے۔ سزا ان کا طرز حکمرانی ہے۔ جو نظریاتی آئیڈیلزم نریندر مودی، امت شاہ کا ہے وہی یوگی آدتیہ ناتھ کا بھی ۔خاص نظریہ سے مودی کے لیے یوگی خطرہ بھی ہیں۔ ہندی ہارٹ لینڈ سے کوئی دوسرا سیاستداں کثیرالمقاصد کے لحاظ سے یوگی آدتیہ ناتھ کے آس پاس بھی نہیں ٹھہرتا ، مگر قومی سطح پر یوپی ماڈل کو ترقی کا ماڈل بتانا مشکل ہے ۔
انہوںنے مزید کہاکہ اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئیں تو یوپی میں بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ برانڈ سیاست اپنی کامیابی اور ناکامی دونوں ہی صورتحال میں خطرناک ہے۔ بنگال میں بھاری اکثریت کی توہین ہوتی نظر آتی ہے۔ ٹی ایم سی رہنما سی بی آئی کے نشانے پر ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ جب یوپی میں اقتدار میں تبدیلی کی بات آتی ہے تو بی جے پی کیا جواب دیتی ہے۔