لکھنؤ:
اسدالدین اویسی کی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) توقع کی جارہی ہے کہ اترپردیش کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں 100سیٹو ں پر اپنے امیدوار کھڑا کرے گی۔ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اور اے آئی ایم آئی ایم صدر اسدالدین اویسی نے اس سے قبل یوپی انتخابات میں مقابلہ کرنے کے لئے بھاگیداری سنکلپ مورچہ(بی ایس ایم)کی نگرانی کرنے والے او م پرکاش راجبھر کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔
بی ایم سی میں نو چھوٹی جماعتیں شامل
‘ٹائمز آف انڈیا میں شائع رپورٹ کےمطابق بی ایم سی کوشش کررہی ہے کہ او بی سی ’دلت‘ او راقلیتی قائدین کی زیرقیادت پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔
بی جے پی کوشش کررہی ہے کہ راجبھرکے سہیلدیو بھارتیہ سماج پارٹی(ایس بی ایس پی) کو بھگوا پارٹی میں شامل کریں، یہاں پر اس بات کاذکر کرنا ضروری ہے کہ راجبھر بی جے پی حکومت کا حصہ تھے۔
اختلافات کی بناء اتحاد سے باہر آنے سے قبل وہ ریاستی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔ درایں اثناء اے آئی ایم آئی ایم یوپی ریاستی صدر شوکت علی نے کہاکہ 100سیٹوں پر مقابلہ کرنے کے لئے مذکورہ پارٹی سخت محنت کررہی ہے۔ تاہم قطعی فیصلہ پارٹی کے قومی صدر کو لینا ہے۔
اترپردیش میں حال ہی میں ہوئے ضلع پنچایت انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے 24سیٹو ں پر جیت حاصل کی تھی۔ مجوزہ اسمبلی انتخابات کے متعلق بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کا داخلہ مسلم ووٹوں کی تقسیم ثابت ہوگا۔
انتخابات میں بھگوا پارٹی کے لئے یہ مددگار ہوگا۔ فی الحال اترپردیش اسمبلی میں 403سیٹوں میں سے بی جے پی کے قبضے میں 306ہیں، وہیں باقی پر اسٹیٹ کی اپوزیشن ایس پی 49 سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔
روشنی کی کرن مغربی بنگال سے پھوٹی ہے جہاں ہندستانی مسلمانوں نے آزاد ہندستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر فرقہ پرستانہ صف بندی سے کام لیا ہے۔ ہمنوائی کا دم بھرنگ والے حیدرآبادی فرقہ پرست جھولی پھیلائے کھڑے تھے لیکن ملت ہندیہ کے اس اقلیتی گروپ نے اس میں تھوکنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اگر یہ کسی انقلاب کا پیش خیمہ ہے تو ملک کے نفرت بیزار حلقوں کو چاہئے کہ وہ بلا تاخیر اس انقلاب کے پرچم تلے یکجا ہو جائیں اور بگڑی ہوئی تقدیر کو سنوارنے میں مثبت اشتراک عمل سے کام لیں۔
یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ غیر سیکولر ووٹوں کی تعداد کتنی ہی کم یازیادہ کیوں نہ ہو، وہ تقسیم نہیں ہوتی لیکن سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا ہر نقصان غیر سیکولر حلقے کے فائدے میں بدل جاتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اِس کا نوٹس پہلے بھی سیاسی جماعتیں لے چکی ہیں، لیکن اُن کے محدود مفادات نے اُنہیں کبھی کوئی سبق حاصل کرنے نہیں دیا۔ بنگال میں بھی یہ سبق از کار رفتہ ہو کر رہ جانے والی جماعتوں اور حیدرآبادی فرقہ پرستوں نے نہیں لیا۔ وہاں اِس سبق سے راست طور پر استفادہ اقلیتی ووٹروں نے کیا اور زبردست کامیابی کے ساتھ کیا۔