تحریر:سروج سنگھ
کرناٹک کے حجاب تنازع کی آنچ آہستہ آہستہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں تک پہنچ رہی ہے۔
دو دن پہلے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک ٹویٹ کیا تھا، جسے حجاب تنازع سے جوڑا جا رہا ہے۔ جب کہ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لفظ حجاب کا ذکر نہیں کیا۔
اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا،’ غزوہ ہند ‘ کا خواب دیکھنے والے ’ طالبانی سوچ‘ کے ’مذہبی جنونی ‘ یہ بات گانٹھ باندھ لیں…وہ رہیں یا نہیںرہیں ۔ بھارت شریعت کے حساب سے نہیں ، آئین کے حساب سے ہی چلے گا۔ جےشری رام ‘!
اس ٹویٹ پر نیوز ایجنسی اے این آئی نے بھی ان سے ایک سوال پوچھا۔ اس سوال کے جواب میں بھی انہوں نے حجاب کے تنازع کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن جس طرح سے ’شریعت‘، ‘آئین‘ اور ’مذہبی جنونی‘ الفاظ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ حجاب کے تنازع سے میل کھاتا ہے۔
کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا واڈرا نے بھی 9 فروری کو اس تنازع پر ٹویٹ کیا تھا۔ اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا، ’بکنی، نقاب، جینز یا حجاب – یہ عورت کا حق ہے کہ وہ جو پہننا چاہتی ہیں پہنیں۔ ہندوستان کے آئین نے انہیں یہ حق دیا ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنا بند کریں۔
اس تنازعہ سے جڑی کچھ خبریں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ اور غازی آباد سے سامنے آئی ہیں۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق علی گڑھ کے گاندھی پارک تھانہ علاقے میں ڈی ایس ڈگری کالج کے کچھ طلباء بھگوا لباس میں ملبوس حجاب کے خلاف احتجاج کرنے آئے اور کالج کے پراکٹر کو میمورینڈم پیش کیا۔ اسی دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی کچھ خواتین نے حجاب کو اپنا آئینی حق بتاتے ہوئے مظاہرہ کیا۔
دہلی سے ملحقہ غازی آباد میں کچھ مسلم خواتین نے حجاب کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور ’ہم انصاف چاہتے ہیں‘ کے نعرے لگائے۔
لیکن سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو نے پورے حجاب تنازع پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انہوں نے نہ تو انتخابی ریلیوں میں اور نہ ہی ٹوئٹر پر اس تنازع سے متعلق کوئی بیان دیا ہے۔ ایک انتخابی میٹنگ کے بعد ان سے اس موضوع پر سوال بھی پوچھا گیا لیکن وہ اس موضوع پر کچھ کہے بغیر چلے گئے۔ ان کی خاموشی کا مطلب اس لیے بھی تلاش کیا جا رہا ہے کیونکہ اتر پردیش میں اسمبلی کا الیکشن ہے۔
جب یہ تنازع شروع ہوا تو یوپی میں پہلے مرحلے کے انتخابات ہونے والے تھے۔ اب دوسرے مرحلے کی پولنگ بھی یہاں ختم ہو چکی ہے اور پہلے دو مرحلے کی پولنگ ان علاقوں میں ہوئی جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد اچھی تھی۔
2014، 2017 اور 2019 کے انتخابات میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں ہندو مسلم پولرائزیشن کی وجہ سے بی جے پی اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی۔
اس موضوع پر اکھلیش یادو کی خاموشی اس وجہ سے بحث کا مرکز ہے۔
حجاب تنازع – الیکشن ایشو
نوبھارت ٹائمز کے مغربی اتر پردیش کے اسسٹنٹ ایڈیٹر شاداب رضوی برسوں سے ان علاقوں میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات چیت میں ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت یوپی انتخابات میں حجاب کا تنازع اس لیے نہیں بن سکا کیونکہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی دونوں ہی اس سے خوفزدہ تھیں۔
بی جے پی کو خوف تھا کہ انہیں جو پانچ سے چھ فیصد مسلم ووٹ مل رہا ہے وہ بھی ختم نہیں ہو جائے۔مسلمانوں میں شیعہ طبقہ کسی حد تک بی جے پی کے ساتھ ہے، تب سے بی جے پی کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ تین طلاق جیسے قوانین کچھ حد تک مسلمانوں کو ان کی عدالت میں کھڑا کر دیا ہے۔
’سماج وادی پارٹی کو خوف تھا کہ غیر او بی سی ووٹوں کو جو انہوں نے اپنے حق میں لانے کے لیے اتنی محنت کی ہے، اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوئے تو وہ ان سے منہ موڑ سکتے ہیں۔‘
2017 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کی بات کریں گے تو بی جے پی کو 6 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے۔ دوسری طرف سماج وادی پارٹی کو 20-25 غیر او بی سی ووٹ ملے۔ کسی بھی الیکشن میں جب دو پارٹیوں کے درمیان مقابلہ کم ہو جائے تو ہر ووٹ کا فیصد اہمیت رکھتا ہے۔
زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس بار یوپی میں مقابلہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے اتحاد کے درمیان ہے۔ اس لحاظ سے ہر ووٹ اہم ہو جاتا ہے۔
شاداب رضوی نے اکھلیش کی خاموشی کی ایک اور وجہ بھی بتائی۔ وہ کہتے ہیں، ’سوامی پرساد موریہ کے بی جے پی چھوڑنے اور ٹکٹوں کی تقسیم کے درمیان، کئی کیمپوں سے یہ خبریں آئی تھیں کہ بی جے پی اس بار کئی موجودہ ایم ایل اے کے ٹکٹ کاٹنے والی ہے۔ اس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔ سماج وادی پارٹی میں شامل ہونے والے ایم ایل اے کو، باقی کچھ ایم ایل اے ٹکٹ کٹنے سے بچ گئے، یعنی بی جے پی چاہتے ہوئے بھی کچھ ٹکٹ نہیں بدل سکی، جس کا فائدہ سماج وادی پارٹی کو ہو سکتا ہے۔ اسے کھیلنے پر مجبور کرنے میں کچھ حد تک کامیاب بھی رہے۔
بی بی سی نے اپنے تجزیے میں پایا ہے کہ پہلے مرحلے کی 58 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 19 جیتنے والے امیدواروں کو کاٹ دیا اور دوسرے مرحلے کی 55 سیٹوں پر جیتنے والے 10 امیدواروں کے ٹکٹ کٹ گئے۔
جناح پر اکھلیش کا بیان
حجاب تنازع پر اکھلیش کی خاموشی کو سینئر صحافی ونود اگنی ہوتری بھی ان کی سیاسی حکمت عملی قرار دیتے ہیں، لیکن اس سیاسی حکمت عملی کووہ ان کے ڈر اورسیاسی تجربے سے بھی جوڑتے ہیں۔
بی سی سی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک طرح کے ووٹ چھٹکنے کا ڈر ہے ، اس لئے یہ حکمت عملی اپنائی گئی ہے ۔ کوئی بھی حکمت عملی اس وجہ سے بنائی جاتی ہے تاکہ بیان سے ہونے والےعمل اور رد عمل کا پورا تجزیہ کیاجاسکے ۔
اکھلیش کی اس حکمت عملی کے پس منظر میں ونود اگنی ہوتری ان کے جناح والے بیان کی یاد بھی دلاتے ہیں ۔ سردار پٹیل کی 146 ویں جینتی کے موقع پر ایس پی صدر اکھلیش نے ہردوئی میںایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ سردار پٹیل ، بابائے قوم ،جواہر لال نہرو اور جناح نےایک ہی ادارے سے تعلیم حاصل کیں اور بیریسٹر بنے اور انہوں نے بھارت کو آزادی دلانے میں مدد کی اور جد وجہد سے کبھی پیچھے نہیںہٹے ۔
ونود اگنی ہوتری نے ہریدوار اور الہ آباد کی دھرم سنسد کا واقعہ بھی یاد کیا جس پر اکھلیش یادو نے ایک بار تنقید کی لیکن بار بار نہیں دہرائی۔
اکھلیش یادو کی انتخابی ریلیوں میں مہنگائی، روزگار، زراعت، بجلی، لکھیم پور کھیری میں کسانوں، ذات پات کی مردم شماری جیسے مسائل پر زور دیا جارہا ہے، جیسا کہ تیجسوی یادو بہار اسمبلی انتخابات میں بھی کرتے نظر آئے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پہلے دو مرحلوں کی ووٹنگ اتر پردیش میں ہو چکی ہے جسے مسلم اکثریتی علاقہ سمجھا جاتا ہے اور جہاں مسلم جاٹ اتحاد کی واپسی کی کہانی سنائی دے رہی تھی۔
(بشکریہ : بی بی سی ہندی)