ہندوستان ٹائمز میں چانکیہ لکھتے ہیں کہ بھارت کی اپوزیشن کے سامنے وہی مسئلہ آج بھی برقرار ہے جو مسئلہ 2014 اور 2019 میں تھا۔ اپوزیشن کا کوئی لیڈر نہیں تھا جس کے پاس سیاسی ذہانت اور مقبولیت کے ساتھ ساتھ عام لوگوں سے وابستگی بھی ہو اور وہ اس معاملے میں نریندر مودی کا مقابلہ کرسکے۔ آج بھی سوال یہ ہے کہ 2024 میں مودی کا مقابلہ کون کرے گا اور کیا صدارتی انداز میں انتخابات ہوں گے؟
چانکیہ لکھتے ہیں کہ وبا کی وجہ سے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں صدر کے انتخاب کو ملتوی کرنا واقعی مسئلے کو برقرار رکھنے کے مترادف ہے۔ سونیا چاہتی ہیں کہ راہل پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں اور کانگریس کے اندر غیر مطمئن گروپ میں انہیں چیلنج دینے کی ہمت نظر آتی ہے، اس لئے انتشار کی صورتحال بدستور جاری ہے۔ اپوزیشن کے ان رہنماؤں میں جنہوں نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے ، ان میں کانگریس، ٹی ایم سی اور این سی پی اپنے اپنے لیڈروں کو 2024 میں اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔
وبائی دور میں اقتدار کو چیلنج کرنے کی اپوزیشن کی خواہش اچھی ہے، لیکن وہ اس اہم سوال کو درکنار نہیں کرسکتے کہ اگر مودی نہیں تو کون؟ قائد کے بغیر اپوزیشن جب 2014 یا 2019 میں کامیاب نہیں ہوئیتو اب کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔
مصنف نے لکھتے ہیں کہ 2014 میں کانگریس نے مودی میں اپیل کرنے کی طاقت کو کم کرکے اندازہ لگائی تھی، تب باقاعدہ طور پر من موہن وزیر اعظم کے امیدوار نہیں تھے، پی ایم عہدے کے امیدوار راہل گاندھی تھے۔ ممکن ہے کہ ایک بار پھر راہل ہی سامنے نظر آئے۔مگر ان کے ساتھ مسئلہ ہے کہ وہ نسل واد روایت میں چھٹی نسل کے ہیں اور کانگریس اتنی کمزور ہے کہ ان کی آواز کو بہت بلند نہیں کرپاتی۔ ان کا سیاسی اور انتظامی ریکارڈ بھی بہتر نہیں رہا ہے۔ ووٹروں کو اعتماد کیسے ہو کہ وہ ملک کی قیادت کر سکتے ہیں؟ اپوزیشن کو اپنا لیڈر منتخب کرنا ہوگا اور اس میں اب اور تاخیر نہیں کی جانی چاہئے۔
(بشکریہ ہندوستان ٹائمز)