نئی دہلی :(ایجنسی)
ادے پور میں درزی کنہیا لال کے قتل کے اہم ملزم ریاض عطاری اور محمد غوث نے قتل سے بہت پہلے بی جے پی لیڈروں سے رابطہ کرلیا تھا۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں کے ساتھ ان کی تصویریں ملی ہیں۔ کانگریس نے ہفتہ کو ایک پریس کانفرنس کرکے بی جے پی لیڈروں کے ساتھ ملزمین کی تصاویر بھی جاری کیں، لیکن بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ ملزم کا بی جے پی سے تعلق تھا۔ تاہم تصویر کی وجہ سے بی جے پی کو تمام الزامات کا سامنا ہے۔ کیونکہ بی جے پی نے بھی تصویر کی بنیاد پر اپوزیشن لیڈروں پر تمام الزامات لگائے تھے۔ جس میں بی جے پی نے تصویر کی بنیاد پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو نشانہ بنایا۔
انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں کے ماضی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کم از کم تین سال تک بی جے پی کی راجستھان یونٹ میں گھسنے کی کوشش کی۔
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے ہفتہ کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ادے پور میں پیش آئے ہولناک واقعہ کے تناظر میں ایک میڈیا گروپ نے انتہائی سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کنہیا لال کے قتل کا اہم ملزم ریاض عطاری کے تعلقات بی جے پی لیڈر ارشاد چین والا اور اور محمد طاہر سے ہیں اور ان کے تعلقات کی تصویریں جگ ظاہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس انکشاف میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ریاض عطاری اکثر راجستھان بی جے پی کے بڑے لیڈر اور ریاست کے سابق وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ کے پروگراموں میں شرکت کرتا رہا ہے۔ ریاض کی راجستھان بی جے پی اقلیتی یونٹ کے اجلاس میں شرکت کی تصاویر بھی منظر عام پر آئی ہیں۔
ترجمان نے سوال کیا کہ کیا بی جے پی اپنے ترجمانوں اور لیڈروں کے ذریعے پورے ملک میں مذہبی جنون پھیلانے کی کوشش کرکے پورے ملک میں آگ لگا کر سیاسی پولرائزیشن کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا یہ بھی سوال ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ ان پارٹی لیڈروں کے جنون پھیلانے کی کوششوں پر خاموش رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی لیڈر ارشاد چین والا کی 30 نومبر 2018 اور محمد طاہر کی 3 فروری، 27 اکتوبر اور 28 نومبر 2019 اور 10 اگست 2021 کو فیس بک پر پوسٹس سے واضح ہوتا ہے کہ کنہیا لال قتل کا ملزم ریاض نہ صرف بی جے پی لیڈروں کا قریبی تھا۔ بلکہ وہ بی جے پی کا سرگرم رکن بھی تھا۔