لکھنؤ:
اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ایک عرصے سے دعویٰ کرتی رہی ہے کہ ریاست میں مجرمانہ سرگرمیاں کم ہوئی ہیں۔ خود وزیراعلیٰ بھی مسلسل مجرموں کو دھمکیاں دیتے اور چھوڑ کر چلے جانے کی نصیحت دیتے نظر آتے رہے ہیں ۔ اس درمیان پولیس کی جانب سے جرائم کی روک تھام کے لیے جاری کردہ اعداد وشمار کافی چونکادینے والےہیں۔ دراصل مارچ 2017 میں جب سے بی جے پی یوپی میں اقتدار میں آئی ہے ، تب سے لے کر اب تک یوپی پولیس نے 8472 انکاؤنٹر میں 3302 مبینہ مجرموں کو گولی مار کر زخمی کیا ہے ۔ان گولی باری کی وارداتوں میں اب تک 146 کی موت ہوئی ہے ، ادھر بڑی تعداد میں لوگوں کے پیر پر گولی لگی ہیں۔
یوپی حکومت نے اب تک سرکاری طورپر تو اپنے ان آپریشن کو کوئی نام نہیں دیا ہے، لیکن ریاست کے کچھ پولیس اہلکار اس کارروائی کو ’آپریشن لنگڑا ‘ بھی بولتے ہیں۔ سرکاری طور پر تو سینئر پولیس آفیسر اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ان کی انکاؤنٹر کے دوران مجرموں کو لنگڑا کرنے اور اس کی مثال بنانے کی کوئی اسکیم رہتی ہے ۔ پولیس یہ بھی کہتی ہے کہ اس نے ایسا کوئی ڈیٹا نہیں تیار کیا ہے ، جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ کتنے مجرم انکاؤنٹر میں پیروں پر گولی لگنے کے بعد لنگڑے ہو گئے ہوں،حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ایسے انکاؤنٹر میں13 پولیس اہلکاروں کی موت ہوئی ہے، جبکہ 1157 سے زیادہ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان انکاؤنٹر میں 18 ہزار 225 مجرموں کی گرفتاری ہوئی ۔
دی انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے یو پی پولیس کے اے ڈی جی (لاء اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے کہا کہ یو پی پولیس کے انکاؤنٹر میں بڑی تعداد میں مجرموں کے زخمی ہونے کی بات یہ ثابت کرتی ہے کہ پولیس کا مقصد انہیں مارنا نہیں ہے ۔ پہلا مقصد گرفتاری ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جرم اور مجرموں کے تئیں یوپی پولیس کی زیرو ٹالرینس پالیسی ہے ۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی ہم پر فائرنگ کرتا ہے ،تو ہم بھی جواب دیتے ہیں اور یہ پولیس کی قانونی طاقت ہے ۔ اس ردعمل کے دوران کچھ چوٹیں لگنے اور موتیں کی وارداتیں بھی سامنے آتی ہیں۔ ہمارے لوگ بھی زخمی ہوتے ہیں اور مارے جاتےہیں ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی غیر قانونی کام کرتاہے تو پولیس کارروائی کرتی ہے ۔
اے ڈی جی نے مزید کہا کہ کسی بھی انکاؤنٹر کو لے کر سپریم کورٹ کی براہ راست گائڈ لائنس ہیں ۔ اتنا ہی نہیں ہر انکاؤنٹر کی مجسٹریٹ جانچ ہوتی ہے ۔ کورٹ میں متاثرین کے پاس اپنا کیس رکھنے کا بھی موقع ہوتا ہے ،حالانکہ اب تک کسی آئینی ادارے نے یوپی پولیس کے انکاؤنٹر کے خلاف کچھ برعکس نہیں کہا۔
قابل ذکر ہے کہ جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے اس طرح کے انکاؤنٹر میں ہونے والی اموات کو سنجیدگی سے لینے کی بات کہی تھی ۔ اتنا ہی نہیں اپوزیشن پارٹی بھی یوگی حکومت کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے اس کی ٹھوک دو پالیسی قرار دیتی رہی ہے ، حالانکہ ریاست میں اگلے سال ہونے والے انتخاب کے مدنظر اب یوگی سرکار ان انکاؤنٹر کو اپنی کامیابی کے طور پر دکھا رہی ہے ۔ خود سی ایم نے کئی بار انتباہ جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر مجرم اپنا راستہ نہیں بدلتے تو پولیس انہیں مار گرانے میں بالکل نہیں دریغ کرے گی ۔