لکھنؤ :
گزشتہ سال ہائی پروفائل بابری مسجد انہدام کیس میں فیصلہ دینے والے ریٹائرڈ جج سریندر کمار یادو نے پیر کو اتر پردیش میں ڈپٹی لوک آیوکت کے طور پر حلف اٹھا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج کی حیثیت سے یادو نے بی جے پی کے سابق رہنما ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو 6 دسمبر 1992کو بابری مسجد کے انہدام معاملے میں بری کردیا تھا۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے،’گورنرکے ذریعہ 6 اپریل کو یادو کو تیسرے ڈپٹی لوکی آیوکت مقرر کیا گیا ۔ یادو کو لوک آیوکت سنجے مشرا نے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی موجودگی میں حلف دلایا۔ باقی دو ڈپٹی لوک آیوکت ، شمبھو سنگھ یادوکو 4 اگست 2016 اور دنیش کمار سنگھ 6 جون 2020 میں مقرر ہوئے تھے۔ ڈپٹی لوک آیوکت کی مدت آٹھ سال ہوتی ہے۔
لوک آیوکت ایک غیر سیاسی پس منظر سے وابستہ شخص ہوتا اور ایک قانونی ادارہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر سرکاری ملازمین یا وزراء کے ذریعہ بدعنوانی، سرکاری بدانتظامی ، یا اقتدار کے ناجائز استعمال سے متعلق معاملات کی تحقیقات کرتا ہے۔
بابری مسجد شہید:
وشو ہندو پریشد اور اس سے وابستہ تنظیموں کے کارکنوں کے ایک بڑے گروپ کے ذریعہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی گئی تھی۔
اترپردیش کے ایودھیا شہر میں سولہویں صدی کی بابری مسجد ایک طویل سماجی و سیاسی تنازع کا موضوع بنی رہی اور اسے ہندوراشٹر وادی تنظیموں کے ذریعہ منعقد ایک سیاسی ریلی کے بعد نشانہ بنایا گیا تھا۔
1980 کی دہائی میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے اپنی سیاسی آواز کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لئے ایک مہم شروع کی تھی۔ اس آندولن کے ایک حصے کے طور پر کئی ریلیاں اور مارچ نکالے گئے ، جن میں ایل کے اڈوانی کی سربراہی میں رام رتھ یاترا بھی شامل ہے۔
6 دسمبر 1992 کو وی ایچ پی اور بی جے پی نے اس مقام پر ایک ریلی کا انعقاد کیا جس میں 150,000کارسیوک شامل تھے۔ ریلی پرتشدد ہوگئی اور بھیڑ نے سیکورٹی فورس کو پیچھے ہٹاتے ہوئے مسجد کو شہید کردیا۔
اس واقعے کی تحقیقات میں 68 افراد ذمہ دار پائے گئے ، جن میں بی جے پی اور وی ایچ پی کے متعدد رہنما بھی شامل تھے۔