تحریر:کمار کنال
’میں آپ سے شکایت کرنے آیا ہوں، میں آپ کو بتانے آیا ہوں، میں آپ کو لیڈر بنانے آیا ہوں‘، حیدرآباد کے ایم پی اور اے آئی ایم آئی ایم پارٹی کے سربراہ اسد الدین اویسی اتر پردیش اسمبلی انتخابات کی تمام ریلیوں میں اسی بات کو دہراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یوپی میں اویسی بہار کے سیمانچل ماڈل پر ہی اپنی انتخابی قسمت آزما رہے ہیں، جس کے تحت ریاست کی مسلم اکثریتی نشستوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ اویسی کا مسلم کارڈ یوپی میں بہار کی طرز پر کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟
سیمانچل کی طرز پر یوپی جیتنے کا منصوبہ
بہار میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اویسی اتر پردیش میں اپنا سیاسی میدان تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے میں اسد الدین اویسی نے بہار کے سیمانچل فارمولے کو اپنایا ہے، جس کے تحت انہوں نے سال 2020 میں بہار اسمبلی کی پانچ سیٹیں جیت کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ اویسی سیمانچل میں ایک بڑے satrap(صوبیدار)کے طور پر ابھرے۔ اس حکمت عملی پر اب یوپی انتخابات میں بھی قسمت آزما رہے ہیں۔
اسد الدین اویسی نے یوپی میں مسلم اکثریتی نشستوں پر توجہ مرکوز کی ہے، جہاں 35 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ ان سیٹوں پر اویسی نے ایک یا دو بار جلسہ کر کے ماحول بنانے کا کام کیا ہے، جس میں زیادہ تر سیٹیں مغربی یوپی کی ہیں۔ ایس پی آر ایل ڈی اتحاد اس بار کھل کر مسلم کارڈ نہیں کھیل رہا ہے جس کی وجہ سے اویسی کو مسلمانوں میں اپنی سیاسی بنیاد بڑھانے کا سیاسی موقع نظر آرہا ہے۔
اویسی نے یوپی میں 9 امیدوار کھڑے کیے
اسد الدین اویسی نے یوپی انتخابات کے لیے اپنے 9 امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کر دی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کی طرف سے جاری کردہ پہلی فہرست میں ڈاکٹر مہتاب کا نام لونی (غازی آباد)، فرقان چودھری کا نام گڑھ مکتیشور (ہاپوڑ)، حاجی عارف کا نام ڈھولونا (ہاپوڑ)، رفعت خان کا نام سیوال خاص (میرٹھ)، ذیشان عالم کوسردھنا (میرٹھ) ،تسلیم احمد کو کٹھور (میرٹھ)، امجد علی کو بیہٹ (سہارنپور )، شاہین رصا خان کو برولی (بریلی)، مرغوب حسن کوسہارنپور دیہات اسمبلی حلقےسے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔
اسدالدین اویسی نے یوپی انتخابات کے لیے پہلی فہرست جاری کی ہے، جس میں صرف مسلم امیدواروں کو موقع دیا گیا ہے۔ ریاست کی جن سیٹوں پر اویسی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں وہ سبھی مغربی یوپی کے مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ بہار کے سیمانچل کی طرح اویسی نے یوپی میں بھی الیکشن لڑنے کی تیاری کر لی ہے جس کی وجہ سے اسے اویسی کا سیمانچل فارمولہ کہا جا رہا ہے۔
بتا دیں کہ اسد الدین اویسی نے بہار اسمبلی انتخابات کے دوران پوری ریاست کے بجائے سیمانچل کے علاقے پر اپنی خصوصی توجہ مرکوز رکھی۔ اویسی نے کئی بار سیمانچل علاقے کا دورہ کیا اور پھر پورنیہ، کشن گنج اور ارریہ کی 20 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ تمام مسلم اکثریتی نشستیں تھیں اور جہاں جیت یا ہار کا فیصلہ مسلم ووٹوں سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسد الدین اویسی نے بہار اسمبلی انتخابات میں توقع سے زیادہ بڑی کامیابی حاصل کی اور سیمانچل میں پانچ سیٹوں پر قبضہ کیا۔
اویسی کو بہار کی جوکی ہاٹ، بہادر گنج، امور اور بیاسی سے اے آئی ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر پانچ لیڈر بہار اسمبلی پہنچ گئے۔ ان اسمبلی سیٹوں پر اویسی کی پارٹی کو آدھے سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ بھلے ہی اویسی کی پارٹی بہار میں انتخابات کے فوراً بعد کنگ میکر نہیں بن سکی لیکن اگر جے ڈی یو گٹھ بندھن سرکار میں کوئی رسہ کشی ہوتی ہے،ایسے میں اپوزیشن کو اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو اس میں اسدالدین اویسی کی پارٹی کا اہم رول ہوگا۔
یوپی کے انتخابات بہار سے کیسے مختلف ہوں گے؟
اس کے ساتھ ہی، اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں اویسی نے 9 امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی تو انہوں نے اس سیمانچل فارمولے کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مغربی یوپی کی جن سیٹوں پر اویسی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں وہ مسلم اکثریتی علاقے ہیں اور مسلم ووٹر فیصلہ کن کردار میں ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو یوپی میں سیمانچل جیسی سیاسی فارمولیشن ہے اور نہ ہی اس میں بہار جیسے لیڈر ہیں۔ بہار میں جیتنے والوں میں سے دو لیڈر ماضی میں ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور ان کا اپنا سیاسی قد ہے۔
یوپی میں مسلم ووٹر کی اہمیت ضرور ہے، لیکن بہار میں جہاں اویسی کی پارٹی جیتی ہے، وہاں 60 سے 70 فیصد مسلم ووٹر ہیں، جب کہ یوپی میں وہ جن سیٹوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں، وہاں 25 سے 40 فیصد مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ ایس پی آر ایل ڈی اتحاد کے علاوہ کانگریس اور بی ایس پی نے بھی مسلم امیدوار دیئے ہیں جبکہ اویسی نے انہیں ٹکٹ دیا ہے۔ ان کا سیاسی قد بہار جیسے لیڈروں جیسا نہیں ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اویسی کا سیمانچل فارمولہ یوپی میں کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے۔
(بشکریہ: آج تک ہندی)