لکھنؤ:(ایجنسی)
اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے چیلنجز پہلے سے کہیں زیادہ ہوں گے کیونکہ دوسرے مرحلے میں پولنگ والی 55 نشستوں میں سے زیادہ تر پر مسلم آبادی کا غلبہ ہے اور انتخابات کے دوران بریلوی (بریلی) اور دیوبند (سہارنپور) کے مسلم مذہبی رہنماؤں کی سرگرمی بھی بڑھ جاتیہے۔ یوپی میں 403 رکنی اسمبلی کے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 14 فروری کو 55 حلقوں میں ووٹنگ ہوگی اوراس کے لیے 21 جنوری کو نوٹیفکیشن جاری کیا جائےگا۔ ان میں مغربی اترپردیش کے سہارنپور، بجنور، امروہہ، سنبھل، مراد آباد، رام پور کے علاوہ روہیل کھنڈ کے بریلی، بدایوں، شاہجہاں پور اضلاع کے 55 اسمبلی حلقے شامل ہیں۔
سال 2017 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں اس علاقے کی 55 سیٹوں میں سے 38 سیٹیں بی جے پی کو، 15 سیٹیں سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور دو کانگریس کے حصے میں آئی تھیں۔ پچھلا اسمبلی الیکشن ایس پی اور کانگریس نے مل کر لڑا تھا۔ پارٹی کے مسلم امیدواروں نے 15 میں سے 10 سیٹیں جیتیں جو ایس پی کے کھاتے میں آئیں۔ جبکہ پہلے مرحلے کی \58 سیٹوں میںبی جے پی کو 53 سیٹیں ملی تھیں اور ایس پی اور بہوجن سماج پارٹی کو دو دو سیٹیں اور راشٹریہ لوک دل کو صرف ایک سیٹ ملی تھی۔
بی جے پی کے ریاستی نائب صدر اور ایم ایل سی وجے بہادر پاٹھک نے دعویٰ کیا، ’دوسرے مرحلے میں بھی، بی جے پی پہلے سے زیادہ سیٹیں جیتے گی کیونکہ مرکز اور ریاست میں بی جے پی حکومت نے تمام طبقات کی ترقی کو ترجیح دی ہے اور لوگ اسے محسوس کرتے ہیں۔ ریاست میں طویل عرصے سے کانگریس کے دور حکومت میں اور پھر 15 سال تک مسلسل ایس پی-بی ایس پی کے دور حکومت میں لوٹ ماراور بدعنوانی سے دوچار عوام ان پارٹیوں کو دوبارہ موقع نہیں دیں گے۔ اکھلیش یادو نے کانگریس، بی ایس پی سب کے ساتھ اتحاد کرکے دیکھا ہے اور عوام نے انہیں سبق سکھایا ہے۔ دونوں انتخابات میں ان 55 سیٹوں پر بی جے پی کے مقابلے اتحاد کی سیاست کا فائدہ ہوا۔ لیکن اس بار ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کے الگ الگ الیکشن ہونے سے سیاسی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ووٹوں کی تقسیم ہوگی اور اس کا فائدہ بی جے پی کو مل سکتا ہے۔ بی ایس پی نے بھی اس علاقے میں مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اپنی سرگرمی بھی بڑھا دی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں جہاں ایس پی اور کانگریس نے کل 17 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی وہیں لوک سبھا انتخابات میں 11 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں جیتی تھیں۔ یہ علاقہ بی ایس پی-ایس پی اتحاد کا حصہ ہے۔ ان میں سے بی ایس پی نے چار سیٹیں (سہارنپور، نگینہ، بجنور اور امروہہ) جیتی ہیں جبکہ ایس پی نے مرادآباد، سنبھل اور رام پور میں تین سیٹیں جیتی ہیں۔ اس سے ایک بات تو صاف ہے کہ اس گڑھ میں مسلم، جاٹ اور دلت ووٹروں کے اتحاد کا فارمولہ کامیاب ہوا۔
اس بار ایس پی نے مغربی یوپی میں سرگرم راشٹریہ لوک دل اور مہان دل کے ساتھ اتحاد کیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اثر جاٹ، شاکیہ، سینی، کشواہا، موریہ، کوئیری برادری میں ہے۔ یادو برادری پر اثر و رسوخ رکھنے والی ایس پی، رام پور کے رکن پارلیمنٹ اور سابق وزیر اعظم خاں کی گرفتاری کے ساتھ ایک اہم مساوات کو اپنے حق میں بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جو زمین سمیت مختلف مجرمانہ مقدمات میں تقریباً دو سال سے سیتا پور جیل میں بند ہیں۔ ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے حکمراں بی جے پی پر ظلم و ستم اور اعظم کو فرضی کیس میں پھنسانے کا الزام لگایا ہے۔ اس بار ریاست کے عوام بی جے پی کو جلاوطنی پر بھیجیں گے۔ دوسرے مرحلے میں پولنگ والے علاقوں میں ایس پی اتحاد بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔اایس پی کےایک اور لیڈر نے دعویٰ کیا ’ایس پی -آر ایل ڈی اتحاد کے ساتھ، بی جے پی سے استعفیٰ دے کر آئے سوامی پرساد موریہ اور دھرم سنگھ سینی اورمہان دل کے کیشو دیو موریہ کا فارمولیشن بہت مضبوط ثابت ہوگا اوربی جے پی کا یہاں سے صفایا ہوجائے گا۔‘ بہرحال سوامی پرساد کی بیٹی سنگھمترا موریہ فی الحال بدایوں سے بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ ہیں اور انہوں نے پارٹی نہیں چھوڑی ہے۔
دوسری طرف کانگریس بھی اپنی زمین مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیر کو بریلوی مسلمانوں کے مذہبی گرو اور اتحاد ملت کونسل (آئی ایم سی) کے صدر مولانا توقیر رضا خان نے اتر پردیش اور پنجاب سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اتر پردیش کانگریس صدر اجے کمار للوکے ساتھ گزشتہ پیر کوایک مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا توقیر رضا خان نے اپنی حمایت کا اعلان کیا، جس پر اظہار تشکر کرتے ہوئے للو نے کہا کہ یہ حمایت آنے والے دنوں میں اترپردیش میں حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
دوسری جانب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رہنما اسدالدین اویسی نے بھی اس زون کی کچھ نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے، اس زون میں وہ گزشتہ سال کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے اور یوگی حکومت میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر بنے پنڈت جیتن پرساد بھی انتخابی امتحان میں ہوں گے۔ شاہجہاں پور ان کا آبائی ضلع ہے اور برہمن رہنما کے طور پر بی جے پی نے انہیں آگے لایا ہے۔