بنگلور :(ایجنسی)
کرناٹک کے اڈوپی میں گورنمنٹ ویمنس پی یو کالج میں حجاب پہننے والی چھ طالبات کی انٹری پر روک کے تین ہفتے بعد بھی وہ اپنی کلاسوں میں جانے کے لیے کالج انتظامیہ سے لڑ رہی ہیں۔
کالج انتظامیہ نے تمام چھ لڑکیوں کے داخلے پر پابندی کی وجہ یہ کہتے ہوئے بتائی ہے کہ ’’کیمپس میں کسی بھی مذہبی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
چھ طالبات میں سے ایک عالیہ اسدی نے دی کوئنٹ کو بتایا کہ ایک پروفیسر نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ حجاب پہن کر داخل ہوئیں تو انہیں باہر پھینک دیا جائے گا۔
ہم ابھی تک کلاس روم کے باہر بیٹھے ہیں۔ ہمیں کلاس کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک دن ہم کلاس کے اندر گئے تھے ،لیکن پروفیسر نے کہا کہ’’ اگر آپ کلاس سے باہر نہیں جاتے ہیں ،تو میں آپ کو باہر دھکیل دوںگا‘‘ یہ پروفیسر کے الفاظ ہیں ۔
ان تمام چھ طالبات کی ‘غیر حاضری 31 دسمبر سے کلاس میں ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
عالیہ اسدی کا مزید کہنا ہے کہ’اگرچہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے، یہ ہمارا آئینی حق ہے، پھر بھی وہ ہمیں کلاس میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے کیونکہ ہم حجاب پہنتے ہیں۔ اس کالج میں بہت امتیازی سلوک ہوتا ہے اور ہم اردو میں بات نہیں کر سکتے۔ہم ایک دوسرے کو سلام نہیں کر سکتے۔ اس کالج میں اس طرح کا امتیازی برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ فرقہ وارانہ ہوتا جا رہا ہے۔‘
‘’کیا کالج لڑکیوں کو بندی پہننے سے روکے گا؟‘
کیمپس فرنٹ اڈوپی کے ایک کارکن زم زم کپتھی نے دی کوئنٹ کو بتایا کہ کیا کالج پوجا کرنے سے گریز کرے گا یا طالبات کو بندی نہیں پہننے کےلیے کہہ سکتا ہے۔
وہ پوچھتے ہیں، ’اگر آپ کہتے ہیں کہ کوئی مذہبی کام نہیں ہونا چاہیے، تو کوئی مذہبی کام نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن یہاں وہ پوجا کرتے ہیں، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں، لوگ بندی لگاتے ہیں ،یہ بھی ایک مذہبی سرگرمی ہے۔یہ ہمارا ڈریس کوڈ ہے، اس لیے ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں حجاب پہننے دیں۔‘
اس وجہ سے ان کی کلاس میں حاضری کم ہو گئی ہے۔ اس بارے میں جب پرنسپل سے بات کی گئی تو وہ کہہ رہے ہیں کہ بچوں کے داخلے کے دوران جو والدین آئے تھے وہ یہاں موجود ہوں۔ وہ یہاں کتنے والدین کی توقع کر رہے ہیں؟ ہم نے ان سے صرف اتنا کہا کہ طلبہ کو کلاس کے اندر آنے دو، ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔
ان تنقیدوں کا جواب دیتے ہوئے، کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے وائس چیئرمین یشپال سوورنا نے دکن ہیرالڈ کو بتایا کہ کیمپس میں 150 مسلم طالبات زیر تعلیم ہیں، لیکن ان میں سے صرف چھ نے اس مسئلے کو اٹھایا۔
انہوں نے مزید کہا،’یہ لڑکیاں جو کیمپس فرنٹ آف انڈیا کی ممبر ہیں، ہمیشہ کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا کرتی ہیں۔ کالج کے اپنے اصول، قوانین ہوتے ہیں۔ یونیفارم مساوات پر مبنی نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہے۔‘
اڈپی کا یہ واحد کالج نہیں ہے جس نے مسلم طالبات کو حجاب پہننے پر پابندی لگا دی ہے۔ چکمگلورو کے ایک اور سرکاری کالج نے بھگوا اسکارف پر پابندی لگا دی۔ جب 50 طالبات نے بھگوا اسکارف پہن کر حجاب پابندی کی مخالفت کی۔
بتادیں کہ سوارا بھاسکر سمیت کئی لوگوں نے ٹوئٹر پر ان طالبات کی حمایت کی اور معاملے کو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک قرار دیا۔