نئی دہلی: دہلی پولیس نے 2019 کے جامعہ اسلامیہ تشدد کیس میں طلباء کے خلاف درج ایف آئی آر اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کی شکایات کی تحقیقات ایک آزاد ایجنسی کو منتقل کرنے کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے درخواست کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ یہ نہ صرف معاملہ کے دائرہ کار کو وسعت دینا چاہتی ہے بلکہ کارروائی کی نئی بنیاد پر بھی مبنی ہے۔دہلی پولیس نے استدلال کیا کہ عرضی گزار تیسرا فریق ہے اور اس معاملہ میں اجنبی ہیں، لہذا وہ کسی پی آئی ایل (مفاد عامہ کی عرضی) کی آڑ میں کسی تھرڈ پارٹی ایجنسی سے عدالتی انکوائری یا تحقیقات کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ تشدد کیس میں طلباء کے خلاف تحقیقات اور دہلی پولیس افسران کے خلاف ان کی شکایات کو آزاد ایجنسی کو منتقل کرنے کی درخواست پر داخل کئے گئے جواب میں یہ باتیں کہیں۔ قومی آواز کی خبر کے مطابق دہلی ہائی کورٹ نے 29 نومبر کو مرکز سے ایک ہفتہ کے اندر جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ اس میں نبیلہ حسن نامی طالبہ کی طرف سے کی گئی درخواست بھی شامل تھی جس میں وبھوتی نارائن رائے، وکرم چند گوئل، آر ایم ایس برار اور کملیندر پرساد پر مشتمل چار افسران کے پینل میں سے کسی ایک افسر کی سربراہی میں ایک آزاد خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ معاملہ اس تشدد سے متعلق ہے جو 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف طلبہ کے احتجاج کے دوران پھوٹ پڑا تھا۔ اس سے قبل درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کولن گونزالویس نے کہا تھا کہ اس معاملے کو پہلے کسی اور بنچ کے ذریعے نمٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ڈھائی تین سال سے اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئ۔گونزالویس کے مطابق دسمبر 2019 میں طل سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پارلیمنٹ تک پرامن مارچ نکالنے کے لیے جامعہ کے دروازے پر جمع ہوئے تھے۔
تاہم، انہیں بتایا گیا کہ وہ پرامن مارچ بھی نہیں کر سکتے تھے اور بعد میں ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا ’’طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی۔ بہت سے طلبا کی ہڈیاں توڑ دی گئیں، ایک کو اندھا کر دیا اور گرلز ہاسٹل میں گھس گئے، انہیں بھی بے دردی سے مارا گیا۔ لائبریری میں بھی گھس گئے۔‘‘پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ رجت نائر نے پہلے عرض کیا تھا کہ درخواست کی ابھی اجازت نہیں دی گئی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ اسے پہلے کارروائی کے دائرہ کار کا تعین کرنا ہوگا۔