نئی دہلی :(ایجنسی)
دہلی کی ایک عدالت سے عمر خالد کو اس وقت جھٹکا لگا جب ان کی درخواست ضمانت کو خارج کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ عمر خالد کو فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر فسادات کی سازش رچنے کا الزام ہے۔
جمعرات 24 مارچ کو دہلی کی ایک عدالت نے عمر خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ یہ مقدمہ دہلی فسادات کی ’بڑی سازش‘ کے معاملے میں ایف آئی آر 59/2020 کے تحت درج کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے ایک حکم میں دیا ہے۔ اس سے قبل عدالت نے عمر خالد کی درخواست ضمانت پر فیصلہ تین بار موخر کیا تھا۔ پہلے 14 مارچ، پھر 21 مارچ اور آخر میں 23 مارچ کو فیصلہ موخر کر دیا گیا تھا۔
کارکن اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد کو اس معاملے میں 14 ستمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ عمر پر سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے ساتھ ساتھ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دیگر دفعات کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔
فروری 2020 میں، قومی دارالحکومت دہلی میں شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف مظاہروں میں شدت آنے کے ساتھ ہی شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں ملی تھیں۔
اس کیس میں اٹھارہ افراد کو ملزم بنایا گیا ہے لیکن اب تک صرف چھ کو ہی ضمانت ملی ہے۔ جن چھ لوگوں کو ضمانت ملی ہے ان میں سے صرف عشرت جہاں کو سیشن کورٹ نے ضمانت دی ہے۔ باقی پانچ دیگر – فیضان خان، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا، نتاشا نروال اور دیونگنا کلیتا کو دہلی ہائی کورٹ جانا پڑا۔
خالد کے وکیل نے عدالت میں یو اے پی اے کے الزامات کی مخالفت کی تھی اور مبینہ طور پر کہا تھا کہ امراوتی میں ان کی تقریر ایم کے گاندھی، ہم آہنگی اور آئین کے بارے میں تھی جو کہ کوئی جرم نہیں ہے۔