نئی دہلی :(ایجنسی)
اتوار 3 اپریل کو،میں اور میرے ساتھی رونق بھٹ صبح 9 بجے براڑی میدان کے لیے نکلے تھے۔ 10:30 پر جب ہم وہاں پہنچی تو لوگ گاڑیوں، بسوں اور بائیکوں سے جھنڈ کی شکل میں آرہے تھے۔
براڑی میدان میں اتوار کو ہندو مہاپنچایت کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ اس کے اہم منتظم سیوانڈیا فاؤنڈیشن کے بانی پریت سنگھ اور پنکی چودھری تھے۔ یتی نرسنگھانند سرسوتی اور سدرشن نیوزکے ایڈیٹر سریش چوہانکے خاص مقررین میں تھے۔
پروگرام شروع ہونے تک تقریباً500 لوگوں کی بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔ سبھی مختلف تنظیموں جیسے ہندو رکشا دل، ہندو یووا واہنی، ہریانہ وقف لینڈ ہولڈرز ایسوسی ایشن وغیرہ سے تھے۔
جب ہم گراؤنڈ پر پہنچے، اسی وقت سے ہماری نگرانی کی جانے لگی۔ کچھ لوگ ہمیں مسلسل گھور رہے تھے اور ہاتھوں سے اشارے کر رہے تھے۔ شاید وہ ہمیں پہچان گئے تھے۔ میں نے گزشتہ سال 8 اگست کو جنتر منتر پر مسلم مخالف نعرے بازی اور اشتعال انگیز تقریر کی اطلاع دی تھی۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر منتظمین پریت سنگھ، پنکی چودھری اور اتم اپادھیائے کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ہم جہاں بھی جاتے، کچھ لوگوں کا ایک گروہ ہمارا پیچھا کر رہا تھا۔ احتیاط کے طور پر، ہم نے اپنے ماسک پہن رکھے تھے۔
پروگرام کا آغاز ہون سے ہوا۔ اس کے بعد مقررین نے اسٹیج پر بولنا شروع کیا۔ سب سے پہلے سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے تقریر کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بہت سی مسلم مخالف باتیں کہی جن میں سے ایک مسلمانوں کے حقوق واپس لینا بھی تھا۔ وہاں موجود لوگ تالیاں بجا کر ان کا ساتھ دے رہے تھے۔
اس دوران ڈاسنا مندر کے متنازع مہنت اور جونا اکھاڑہ کے مہامنڈلیشور یتی نرسنگھانند سرسوتی اسٹیج پر پہنچے۔ ان کے آتے بھیڑ میں نعرہ گونجنے لگا۔’’ جے شری رام ،ہر ہر مہادیو‘‘
گزشتہ سال 8 اگست کو مسلم مخالف نعرے بازی کیس میں میری رپورٹ کے بعد پریت سنگھ اور پنکی چودھری کے ساتھ ونونیت کرانتی اور اہم ملزم اتم اپادھیائے کو گرفتار کیا تھا۔ دہلی پولیس نے میرے ویڈیو کو بطور ثبوت اس کیس میں شامل کیا تھا۔ یہ سارے لوگ براڑی میدان میں موجود تھے ۔
اسٹیج پر اتم ملک شاید مجھے پہچان چکے تھے۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑ لیے۔ اس دوران نیچے کرسی پر بیٹھا ایک اور ملزم ونیت کرانتی بھی مجھے مسلسل گھور رہا تھا۔ بے چین ہوکر میں نے اور رونق فوراً اس علاقے کو چھوڑ کر ،مین اسٹیج کی طرف جہاں، زیادہ لوگ تھے، وہاں چلے گئے ۔
آخر میں سیو انڈیا فاؤنڈیشن کے صدر اور تقریب کے مرکزی منتظم پریت سنگھ اسٹیج پر پہنچے۔ وہ ایک ایک کرکے اپنی 5 مانگیں عوام کے سامنے رکھتاہے۔ اس دوران میرے لیے ایک انتہائی ناگوار صورت حال پیدا ہو گئی۔ پریت سنگھ، جو اسٹیج سے تقریر کر رہے تھے، میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’شیوانگی جی، کیا میں جو کہہ رہا ہوں اس میں کوئی نفرت انگیز تقریر ہے؟‘
یہ سنتے ہی سب مجھے گھورنے لگے۔ مجھے ڈر لگا لیکن میں خاموش کھڑا ویڈیو بناتا رہا۔ رونق اور میں نے فیصلہ کیا کہ ہم بھیڑ میں بیٹھے کچھ لوگوں سے بات کرنے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔
ابھی ہم میڈیا کے لیے مختص علاقے سے باہر نکل رہے تھے کہ ایک فری لانس صحافی مہربان دوڑتا ہوا ہماری طرف آئے۔ وہ گھبرائے ہوئے تھے۔ مہربان ہم سے کہتے ہیں ’’جلدی چلئے ،کچھ رپورٹوروں کو پولیس پکڑ کر لے جارہی ہے ۔‘
اس واقعہ کو سمجھنے کے لیے ہم مہربان کے پیچھے بھاگے۔ رونق تھوڑا آگے نکل گیا تھا۔ میں پیچھے سے آرہی تھی۔ اسی دوران ایک آدمی نے مجھے روکا۔ وہ منتظمین کی ٹیم میں شامل تھے۔ انہوںنے کہا، ’’میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں شیوانگی جی۔ پچھلے سال آپ کی وجہ سے لوگ ہمیں جاننے لگے۔ میں کچھ کہنے کے بجائے آگے بڑھ گئی۔
جب میں موقع پر پہنچی تو وہاں ہاتھا پائی ہو رہی تھی۔ پولیس کی پی سی آر وین کھڑی تھی۔ پولیس والے بھی کھڑے تھے۔ تبھی 15-20 لوگوں کے ہجوم نے مہربان کو کھینچ لیا۔
لوگ چیخ رہے تھے- ’’یہ صحافی نہیں ہیں۔ ان کی تلاشی لو۔ ان لوگوں کے پاس ہتھیار ہیں۔‘‘
رونق اور میں نے ویڈیوز بنانے لگے۔ میں نے کئی بار ایسے پروگراموں کو کوریج کیا ہے ۔ ویڈیو میں بھیڑ کا چہرہ ضروری ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اچانک بھیڑ نے رونق کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ بھیڑ میں گھر گیا، سب سے پہلے اس کا چشمہ نکال کر زمین پر پھینک دیا، پھر اس کا پریس آئی ڈی کارڈ مانگنے لگے۔ اس کے ہاتھوں سے سامان بھی چھین لیا گیا۔
میں اس سب کی ویڈیو بنا رہی تھی۔ پھر 4-5 آدمی میرے پاس آئے۔ میرا بیگ پکڑ کر وہ مجھے پیچھے کی طرف کھینچنے لگے۔ ان میں سے دو آدمی میرے پیچھے کھڑے تھے، ایک نے بیگ پکڑا ہوا تھا اور ایک نے مجھے کندھے سے پکڑ رکھا تھا۔ ایک آدمی نے میرا ہاتھ پکڑا جس میں میں نے موبائل لیاہوا تھا۔ ایک آدمی میرا موبائل چھیننے لگا۔
کوئی کہہ رہا تھا- ’’اپنا پریس شناختی کارڈ دکھاؤ۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا- ’’موبائل میں ریکارڈنگ ڈیلیٹ کر دو۔ ہم ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
پولیس میرے پاس کھڑی تھی، اس لیے مجھے یقین تھا کہ میں نے بھی اونچی آواز میں ان سے کہنا شروع کیا، ’میں اپنا پریس آئی ڈی کارڈ دکھاتی ہوں۔ لیکن آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے ۔‘‘ مجھے امید تھی کہ پولیس مداخلت کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
میرے احتجاج کے بعد ان لوگوں کی گرفت تھوڑی ہلکی ہوئی تو میں فوراً رونق کو دیکھنے کے لیے اس کی طرف بھاگی۔ میں نے دیکھا کہ پولیس کی پی سی آر وین میں 5 صحافی پیچھے بیٹھے تھے۔ یہ میر فیصل، مہربان، میگھناد، ارباب علی اور شاہد تھے۔
دی کوئنٹ کے صحافی میگھناد نے مجھے کھڑکی کے اندر سے بتایا کہ اسے پولیس اسٹیشن لے جایا جا رہا ہے۔
پی سی آر نے انہیں لے کرنکل گئی ۔ میں اور رونق تھوڑی دیر وہیں رک گئے کیونکہ رونق کو جس بھیڑ نے گھیرا تھا وہ اس کاپریس آئی ڈی لے کر بھاگ گئی تھی۔
وہاں موجود پولیس والوں نے ہم سے پوچھ گچھ کی۔ ہم سے بھیڑ میں شامل لوگوں کے نام پوچھے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم مکھرجی نگر تھانے پہنچ گئے۔ دی کوئنٹ کے میگھناد بوس، ہندوستان گزٹ کے میر فیصل، آرٹیکل 14 کے ارباب علی اور مہربان ہمارے ساتھ تھانے میں موجود تھے۔ ہم نے پولیس میں اپنی تحریری شکایت درج کرائی۔ اس وقت ڈی سی پی (نارتھ ویسٹ) اور ایس ایچ او بھی وہاں موجود تھے۔
میر اور ارباب زخمی ہو گئے تھے۔ بعد میں اس کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔ میر نے کہا، ’میں اور ارباب کوریج کر رہے تھے۔ ہم لوگوں سے انٹرویو کر رہے تھے۔ کام ختم کر کے ہم وہیں کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر لوگوں کے ایک گروپ نے مجھے گھیر لیا۔‘
میر کا الزام ہے کہ ہجوم نے ان کا کیمرہ چھین لیا۔ وہ کہتے ہیں، ’بھیڑ میں سے ایک شخص نے مجھ سے میرا نام پوچھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میرا نام ’میر فیصل‘ ہے۔ وہ سمجھ گئے کہ میں مسلمان ہوں۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ میں نے اوکھلا سے کہا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے خود کہا ’اچھا جامعہ نگر‘۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے میری پریس آئی ڈی مانگی۔
میر اس واقعے کے بارے میں مزید بتاتے ہیں، ’’میں نے حال ہی میں ایک نئی تنظیم میں کام شروع کیا ہے اس لیے میرے پاس دکھانے کے لیے شناختی کارڈ نہیں تھا لیکن موبائل میں ایک تصویر تھی۔ میرے ساتھ ارباب بھی تھا۔ میں نے انہیں اپنا بیگ بھی دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
بھیڑ نے میر کا بیگ اپنے پاس رکھ لیا۔ میر کہتے ہیں، ’جیسے ہی ہم نے 20 لوگوں کو اپنے ارد گرد کھڑے دیکھا۔ وہ ہم پر الزام لگانے لگے کہ آپ یہاں ایجنڈے کے لیے آئے ہیں۔ انہوں نے میرے بیگ کی تلاشی لی۔ بیگ میں مسلم ناموں کی فہرست تھی۔ یہ وہ نام تھے جن پر مجھے اپنی اگلی کہانیاں کرنی تھیں۔‘
آگے کی کہانی ارباب بتاتے ہیں، ’’پولیس بھیڑ کو دیکھ کر آئی، اس کے باوجود بھیڑ نے ہمیں ان کے سامنے مارنا شروع کر دیا۔ دھکیل دیا وہ کہہ رہے تھے کہ ان دونوں کو پولیس والوں کو نہ دو، انہیں اسی طرح مارو۔ یہ جہادی ہیں، یہ ملا ہیں۔‘‘
ارباب کہتے ہیں، ’ہجوم نے میرا موبائل چھین لیا اور 7-8 لوگوں سے کہا کہ ہم پر نظر رکھیں اور ہمیں وہاں سے جانے نہ دیں۔ انہوں نے زبردستی میرے فون سے ویڈیوز ڈیلیٹ کرنا شروع کر دیں۔ کافی دیر تک پولیس صرف ہمیں دیکھتی رہی۔ کچھ کر نہیں رہی تھی۔‘
اس دوران مہربان میر اور ارباب سے چند میٹر کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ اسے بچانے گیا تو ہجوم اس پر بھی حملہ کر دے گا۔
مہربان کہتے ہیں، ’’وہ میر اور ارباب کو ہراساں کر رہے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھ پر حملہ کیا جائے گا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں تو میں نے میگھناد کو فون کیا۔ میگھناد نے مجھ سے باقی صحافیوں کو بلانے کو کہا۔
میگھناد کو بھی پی سی آر وین میں تھانے لایا گیا۔ میگھناد نے ہمیں بتایا، ’ہجوم جارحانہ تھا۔ انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے پولیس اہلکار کو بھی گھسیٹ کر مار ا پیٹا کیونکہ وہ سول ڈریس میں تھے۔‘
میگھناد کے ٹویٹس میں سے ایک کو ڈی سی پی (نارتھ ویسٹ) اوشا رنگنی نے ’جھوٹا‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی بھی صحافی کو حراست میں نہیں لیا۔ کچھ صحافی رضاکارانہ طور پراپنی مرضی سے بھیڑ سے بچنے کے ، جو ان کی موجودگی سے مشتعل ہو رہی تھی ، پروگرام کی جگہ پر تعینات پی سی آر وین میں بیٹھ گئے اور سیکورٹی وجوہات کی بناپر پولیس اسٹین جانے کا متبادل انتخاب کیا۔
جبکہ حقیقت میں میری موجودگی میں پولیس صحافیوں کو پی سی آر وین میں بٹھا رہی تھی۔ انہوں نے ہجوم میں سے کسی ایک شخص کو بھی حراست میں نہیں لیا۔
نیوز لانڈری نے شام 4 بجے مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن میں دفعہ 354، 323، 356، 511 اور 34 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ اس کے علاوہ میر فیصل، ارباب اور مہربان نے میڈیکل کے بعد الگ الگ ایف آئی آر درج کرائی ہے۔