ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ بھارت میں حراستی قوانین کی صریح خلاف ورزی عام بات ہے۔ بیشتر پولیس افسران قیدیوں پر تشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف حراستی اموات میں مسلسل اضافے سے عام شہری اور قانون داں دونوں ہی فکر مند ہیں
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت میں پولیس حراست میں 1888 افراد کی اموات ہوگئیں۔ ان اموات کے لیے پولیس اہلکاروں کے خلاف 893 کیسز درج کیے گئے لیکن صرف 358 پولیس افسران اور دیگر پولیس اہلکاروں کو باضابطہ ملزم قرار دیا گیا
سرکاری ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ ان کیسز میں صرف 26 پولیس اہلکاروں کو قصوروارٹھہرایا گیا۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سن 2020میں پولیس حراست میں 76افراد کی موت ہوگئی۔ ان میں سب سے زیادہ 15حراستی اموات وزیر اعظم مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ہوئیں۔ بی جے پی کی حکومت والی اترپردیش دوسرے نمبر پر رہی۔ گزشتہ برس حراستی اموات کے لیے ایک بھی پولیس افسر یا اہلکار پر عائد الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔
سرکاری اعدادو شمار پر شبہات
حراستی اموات کے خلاف مہم چلانے والی تنظیم ‘نیشنل کمپین اگینسٹ ٹارچر(این سی اے ٹی)’ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2019 میں ہر روز اوسطاً کم ازکم پانچ افراد کی حراست کے دوران اموات ہوئیں۔ این سی اے ٹی کے مطابق حراستی اموات کے حالات اس سے کہیں زیادہ بدتر ہیں جتنے سرکاری اعدادو شمارمیں بتائے گئے ہیں۔ این سی اے ٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں جرائم کا سرکاری ریکارڈ رکھنے والا ادارہ گزشتہ 20 برس میں حراستی اموات کی جتنی تعداد بتاتا ہے اتنی تو صرف سن 2019 میں ہوئیں۔