نئی دہلی :
نیوز چینل ’این ڈی ٹی وی انڈیا ‘کے اینکر اور ہندوستان کے سینئر صحافی رویش کمار نے ایک بار پھر سے ’گودی میڈیا‘ اور ان کے اینکروں پر نشانہ سادھا ہے ۔ یوپی بلاک پرمکھ الیکشن میں ہوئے تشدد کے دوران صحافیوں کے ساتھ ہوئی مار پیٹ کا ذکر کرتے ہوئے رویش کمار نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھاکہ یوپی میں پٹ رہے صحافیوں کو گمان ہوگا کہ ان کااینکر سرکار کی جوتی چاٹتا ہے تو افسر تھپڑ نہیں مارے گا۔
اترپردیش میں جس طرح سے تشدد ہورہا ہے اس کو چھوڑ کر دہلی کے صحافیوں کو لکھنے کا موضوع دیا جار ہا ہے کہ وہ مودی کابینہ کی توسیع کو کابینہ کے دور سے جوڑیں۔ جلد ہی کابینہ سے جوڑ کر کئی مضامین آپ کو ملیں گے کیونکہ لکھنے کے لیے تھیم فراہم کی گئی ہے ۔
یوپی میں گودی میڈیا کے صحافیوں کو بھی افسر پیٹ رہے ہیں۔ ان کے چینل خاموش ہیں ۔ ان چینلوں کے صحافیوں کو گمان رہاہو گا کہ ان کااینکر سرکار کی جوتی چاٹتا ہے تو افسر تھپڑ نہیں مارے گا۔ اپنے صحافی کے پیٹے جانے کے بعد بھی ان چینلوں نے اف تک نہیں کی۔ عام لوگ اس ڈیزائن کو ٹھیک سے سمجھیں۔ اس کے بدلے ہیرا موتی نہیںملے گا۔ ایک ایسا نظام مل رہا ہے جہاں آپ کی اوقات مچھر کے برابر ہو گئی ہے۔ آپ اس ریاست ، اُس ریاست کا کھیل کھیلتے رہیں گے ، لیکن جو نظر آ رہاہے اسےآپ کا بھلا ہو رہاہے تو کوئی بات نہیں۔ ان صحافوں کو کیا ملا؟ سرکار کی جوتی اٹھا کر بھی لات جوتا ہی ملا۔ گلے کاہار نہیں ملا۔توقع ہے کہ گودی میڈیا کے چینل اپنے صحافوں کے لیے آواز اٹھائیں گے ۔ افسر وں کے خلاف کارروائی کی مانگ کریں گے ۔
جس طرح سے انتظامیہ کی ملی بھگت کی خبریں آرہی ہیں ان افسروں کا بھی دل اندر سے روتا ہوگا کہ کیا کررہے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے جمہوریت کاگلا گھونٹ رہےہیں۔ امید ہے کہ ان کے پریوار کے لوگ اپنے افسر پاپا یا شوہر پر فخر کریں گے ۔ بچوں کو بتائیں گے کہ دیکھو آج پاپا آئین کا گلا گھونٹ کر گھر آرہے ہیں ۔ سب مل کر چائے اور برفی پر بحث کریں گے ۔ ویسے بھی پاپا یا شوہر کو کل امبیڈکر جینتی پر ایک اچھی سی تقریر بھی کرنی ہے ،پھر وہ سب کے ہیرو بن جائیں گے ۔
کیا کہہ سکتے ہیں ؟ یہی کہ سوچئے کہ کیا ہو رہاہے ۔ نہیں تو جو آئی ٹی سیل کہتا ہے اسے ہی مان لیجئے ۔ اخبار ستیاناش کو کون روک سکتا ہے ۔ اسے گلے سے لگائے رکھئے۔
لڑکی والوں سے اپیل ہے کہ شادی طے کرتے وقت گودی میڈیا کے چینلوں کے صحافیوں سےاپنی بیٹی کا رشہ طے نہ کریں۔ آپ کا داماد سرکار کا گائے گا تو آپ کو اچھا لگے گا لیکن سرکار سے لات جوتا کھا کر آئے گا تو اچھا نہیں لگے گا۔ سیلری بھی خراب ملتی ہے۔ آپ صحافی سمجھ کر شادی کریں گے لیکن وہ نکلے گا دلال اور اس کے بعد بھی جو افسر چاہے گا چوراہے پر کوٹ دے گا۔
اور جو اچھے صحافی ہیں انہیں شادی سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے۔ اس کی سیلری ویسے بھی نہیں بڑھنی ہے ۔ وہ خود سے سوچیں کہ ان سے دلالی ہوگی کہ نہیں، سیلری بڑھے گی نہیں تو گزارا کیسے چلے گا۔ اس دور میں ان کی ضرورت نہیں رہی۔
باقی بھارت کی لڑکیوں سے کئی بار اپیل کرچکا ہوں ۔ فرقہ وارانہ ذہنیت کے لڑکے سے شادی نہ کریں ، جس سے ماننا ہو گا وہ مانیں گی نہیں تو میری بات یاد تو آئے گی۔