نئی دہلی :(ایجنسی)
ہائی کورٹ نے جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کی جانب سے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے لفظ ’جملہ‘ کے استعمال کئے جانے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے دہلی فسادات کے ملزم عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ہندوستان کے وزیر اعظم کے تعلق سے لفظ ’جملہ‘ استعمال کرنا مناسب ہے؟ یہ بھی کہا کہ تنقید کرتے ہوئے بھی ایک’لکشمن ریکھا‘ ہونا چاہیے۔
جسٹس سدھارتھ مردول اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا، ’’خالد اپنی تقریر میں وزیر اعظم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کچھ صحیح الفاظ استعمال کیے گئے اور اس کے بعد یہ جملہ ہندوستان کے وزیر اعظم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیا یہ مناسب ہے؟ بنچ نے فروری 2020میں امراوتی میں خالد کی تقریر کی کلپ کمرہ عدالت میں سننے کے بعد یہ ریماکس کئے۔
خالد کے وکیل تردیپ پیس نے دلیل دی کہ حکومت پر تنقید کرنا جرم نہیں ہو سکتا۔یو اے پی اے کےتحت 583 دنوں سے جیل میں بند ہونے پرکیا غور نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہم اتنے عدم برداشت نہیں ہو سکتے۔ اس خوف سے لوگ بول نہیں پائیں گے۔ پیس نے کہا کہ خالد کے خلاف ایف آئی آر آزادی اظہار کے خلاف عدم برداشت کا نتیجہ ہے۔
تقریر جارحانہ اور ناگوار
بنچ نے 22 اپریل کو سماعت کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ امراوتی میں خالد کی تقریر، جو چارج شیٹ کا حصہ ہے، قابل اعتراض، نفرت انگیز اورناگوار ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ لوگوں کو اکساتے ہیں؟ آپ، آپ کے آباؤ اجداد انگریزوں کی دلالی کررہے جیسی باتیں کہتے ہیں، آپ کو یہ قابل اعتراض نہیں لگتا۔ یہ پہلی بار نہیں کہا گیا ہے۔ آپ نے کم از کم پانچ مرتبہ فرمایا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ مخصوص طبقہ ہی تھا جس نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ لڑی تھی۔ تقریر میں خالد نے کہا تھا، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی ان تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی جو گاندھی کی کال پر قائم ہوئے تھے۔ وہیں اب گولیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور غداروں کا اڈہ کہا جا رہا ہے۔