اسلام آباد :(ایجنسی)
عدم اعتماد معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں پیپلز پارٹی کی فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کون سے آئینی سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے؟ اگرآپ کو کسی پر عدم اعتماد ہے تو بتا دیں،ہم اٹھ جاتے ہیں، بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے؟
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس مظہر عالم،جسٹس منیب اختر ، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے حکم دیا کہ عدالت میں موجود تمام افراد لابی میں چلے جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گزشتہ روز مختصر حکم نامہ جاری کیا تھا،ہم گزشتہ روز اسمبلی کی کارروائی پر سماعت کر رہے ہیں،ہم درخواست گزاروں کو پہلے سننا چاہتے ہیں، اگر کوئی اسٹیٹمنٹ دینا چاہتا ہے تو دےدے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان روسٹرم پر آگئے اور دلائل دینا شروع کیے کہا کہ صدارتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے۔
ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں: چیف جسٹس
بابر اعوان نے کہا کہ میری استدعا ریکارڈ کرلیں، عمران خان نےاجازت دی ہے کہ عرض کروں کہ ہم الیکشن کرانےکو تیار ہیں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں۔
وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں کہا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے عدالت میں پیش ہوا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کون دلائل دے گا؟
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ عدالت پر بوجھ نہیں بننا چاہیےفل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کون سے آئینی سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ کو کسی پرعدم اعتماد ہے تو بتا دیں، ہم اٹھ جاتے ہیں، ایک فل کورٹ کی وجہ سے 10 لاکھ کیسز کا بیک لاگ ہوا۔
فاروق نائیک نے کہاکہ عدالت اہم آئینی معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، چیف جسٹس نے کہاکہ آئینی سوال کو دیکھنا عدالت کا کام ہے،آپ اپنا کیس بتائیں کیا ہے؟
وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ صدر کو ہٹانے سے مختلف ہے: پی پی وکیل
وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ آرٹیکل 95 وزیراعظم پر کسی چارج یا الزام کی بات نہیں کرتا، عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے کوئی وجہ ہونا ضروری نہیں، اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر بھی وزیراعظم والا طریقہ کار لاگو ہوتا ہے،وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ صدر کو ہٹانے سے مختلف ہے۔
فاروق نائیک نے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 54(3) کا حوالہ دیا اور بتایا کہ اسمبلی اجلاس 14 روز میں بلانا آئینی پابندی ہے۔
پی پی وکیل نے کہا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد داخل ہوئی، قومی اسمبلی کا اجلاس21 کے بجائے25 مارچ کو بلایا گیا، ڈپٹی اسپیکر نے25 مارچ کو فاتحہ کے بعد اجلاس 28 مارچ تک ملتوی کیا۔
فاروق نائیک نے کہا کہ رولز کے تحت قرارداد پر اجازت دی گئی، اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے 14روزمیں اجلاس بلانا تھا، تحریک جمع ہونے کے بعد 20 تاریخ تک اسپیکر نے اجلاس نہ بلانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو اسپیکر کے اقدام سے متعلق ہے، آپ بتائیں کے اسپیکر نے صحیح کیا یا غلط؟جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ سو ارکان اسمبلی ہیں، 25کہتے ہیں تحریک پیش کی جائے، پچاس حق میں نہیں تو کیا تحریک مسترد نہیں ہوجائے گی؟
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہے کہ ایوان؟ سپریم کورٹ کا سوال
عدالت نے سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہے کہ ایوان؟جسٹس منیب نے سوال کیا کہ اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے؟ اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا 3 اپریل کا دن اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کی بجائے مقرر کیا گیا؟ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے کونسا دن دیا؟ تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی،چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ کارروائی کس لیے ملتوی ہوئی؟ فاروق نائیک نے ایجنڈا آئٹم کا حوالہ دیا اور کہاکہ 3 اپریل کوعدم اعتماد تحریک رائے شماری کیلئے ملتوی کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رولز میں تو ووٹنگ سے پہلے بحث کرانا ضروری تھا، رولز کے مطابق تین دن بحث ہونا تھی،بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے؟فاروق نائیک نے کہا کہ ووٹنگ سے پہلے بحث کرانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اسپیکر نے اجازت نہیں دی۔
فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ بلاول بھٹو نے اسپیکر کو کھڑے ہوکر درخواست بھی کی، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بحث کرانے کی اجازت نہ دینا تو پھر پروسیجرل ڈیفکیٹ ہوا۔
اسپیکر صرف خود رولنگ دینے کا اختیار رکھتا ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اسپیکر کے اختیارات مختلف ہیں تو پھر سپریم کورٹ کے دائرہ کار کا سوال اٹھے گا، اسپیکر کی تعریف میں پینل آف چیئرمین بھی آتا ہے، اسپیکر یا تو ہاؤس میں رولنگ دیتا ہے یا اپنے آفس میں فائل پر،اسپیکر صرف خود رولنگ دینے کا اختیار رکھتا ہے،اسپیکر اپنی دی گئی رولنگ واپس لے سکتا ہے،رول 28 کے تحت رولنگ اسپیکر خود دے سکتا ہے کوئی اور نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی رولزمیں یہی ہے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کو رولنگ کا تحریری اختیار دیتا ہے، آئین کے تحت ڈپٹی اسپیکر صرف اجلاس کی صدارت کرسکتا ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت صدارتی ریفرنس کیساتھ ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد پرسوموٹو کیس کی سماعت
اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان سپریم کورٹ پہنچنے پر کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ عدالت کے سامنے رکھیں گے، جو بھی عدالتی فیصلہ ہوگا اس پر عملدرآمد کیا جائےگا۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے، آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر آج سماعت ہونی ہے۔ تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے سے متعلق ازخود نوٹس پرسماعت بھی ایک بجے ہوگی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل لارجر بینچ کا حصہ ہوں گے۔ صدارتی ریفرنس پر سماعت کرنے والا بینچ ہی ازخود نوٹس پر بھی سماعت کرے گا۔
تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے وکلاء کے ذریعے پیش ہونے کا حکم
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی ڈپٹی اسپیکر رولنگ پر اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا ہے، عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے وکلاء کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ صدر مملکت، سیکریٹری دفاع و داخلہ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کیا گیا جبکہ عدالت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل سےازخود نوٹس میں معاونت طلب کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پیدا شدہ صورت حال کا ازخود نوٹس لیا تھا، چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نےحکم نامہ جاری کیا کہ ساتھی ججز نے چیف جسٹس سے رابطہ کر کے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو آرٹیکل 5 کا استعمال کر کے ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی آئینی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 استعمال کرتے ہوئے بادی النظر میں نہ تحقیقات کے نتائج حاصل کیے اور نہ متاثرہ فریق کو سنا، عدالت جائزہ لے گی کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ کوئی ریاستی ادارہ اور اہلکار کسی غیر آئینی اقدام سے گریز کرے ، صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ کے حکم سے مشروط ہوگا ، سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو امن و امان قائم کرنے کے لیے اقدامات کی رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی گئی۔
پنجاب اسمبلی میں پیدا صورتِ حال پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کیا گیا ہے، عدالت نے حکم دیا کہ پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے تقرر کا عمل آئینی اور پُرامن طریقے سے کیا جائے۔