نئی دہلی :
کورونا کے بڑھتے کیسز کے درمیان انتخابات کرائے جانے پر مدراس ہائی کورٹ کے ذریعہ الیکشن کمیشن کو لے کر دئے گئے ’قتل ‘ والے تبصرے کے خلاف دائر عرضی پر جمعرات کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سماعت کے دوران جسٹس چندرچوڑ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ آئینی اداروں کو میڈیا رپورٹنگ کے بارے میں شکایت کرنا بند کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 19 صرف شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی نہیں دیتا ، بلکہ میڈیا کو بولنے کا حق بھی دیتا ہے۔ مدراس ہائی کورٹ کے تبصروں کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
کمیشن نے ان تبصروں کو ’غیرضروری اور مایوس کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے خلاف قتل کے الزامات والے مدراس ہائی کورٹ کے تبصرے کو لے کر میڈیا میں مسلسل باتیں ہو رہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف مدراس ہائی کورٹ کے تبصروں پر کہا کہ سوچے سمجھے بغیر کئے گئے تبصروں کی غلط ترجمانی کئے جانے کا امکان ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہاکہ میڈیا کو عدالت کی کارروائی کی رپورٹنگ کاحق ہے ۔ سپریم کورٹ نے حالانکہ کووڈ 19-پھیلنے کے لیے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے تبصرے کو سخت بتایا۔
اس سے قبل پیر کو کیس کی سماعت ہوئی تھی۔ اس دوران بھی سپریم کورٹ نے یہ واضح کر دیا تھا کہ میڈیا کو عدالت کے ریمارکس کی رپورٹنگ کرنےسے نہیں روکا جاسکتا۔ بنچ نے کہا تھا کہ میڈیا جمہوریت میں ایک اہم اور طاقتور نگہبان ہے اور اس کو ہائی کورٹس میں ہونے والے مباحثے کی رپورٹنگ کرنےسے نہیں روکا جاسکتا۔
جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ دو آئینی اداروں کے مابین طاقت کے توازن کو لے کر اٹھے ایک نازک سوال نے پھر سے بھارت میں بولنے کی آزادی کے ایک بڑے ایشو کو زندہ کردیا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ مدراس ہائی کور ٹ کے باضابطہ حکم میں وہ تبصرہ نہیں ہے جس پر الیکشن کمیشن نے اعتراض کیا ہے۔
بتادیں کہ مدراس ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران پر چار ریاستیوں اور ایک مرکز کے زیر انتظام ریاست میں انتخابی پروگرام کے دوران کووڈ 19-پروٹوکول پر عمل آوری یقینی بنانے میں ناکام رہنے پر ممکنہ قتل کا قدمہ چلنا چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے مدراس ہائی کورٹ کے تبصرے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔