وسی ولیم سن
اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد جیل حکام نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی اور انھیں اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے بتایا ہے کہ جیل میں انھیں چھڑیوں سے مارا گیا، ان پر تھوتھنی والے کتے چھوڑے گئے، ان کے کپڑے اور کمبل واپس لے لیے گئے اور انھیں کھانے سے محروم رکھا گیا۔
ایک خاتون قیدی نے بتایا کہ انھیں ریپ کی دھمکی دی گئی اور گارڈز نے دو بار قیدیوں کے کمروں میں آنسو گیس پھینکی۔
بی بی سی نے چھ سابق قیدیوں سے بات کی اور تمام نے بتایا کہ جیل میں ان پر تشدد کیا گیا۔
فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ کچھ گارڈز نے ہتھکڑی لگے قیدیوں پر پیشاب کیا۔ اور گذشتہ سات ہفتوں میں چھ قیدی اسرائیلی تحویل میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ تمام قیدیوں کو قانون کے مطابق حراست میں رکھا جاتا ہے۔
حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائی گئی خواتین اور بچوں کی رہائی کے بدلے اس ہفتے اسرائیل نے 18 سال کے محمد نزل کو رہا کیا۔
انھیں اگست کے مہینے سے فرد جرم عائد کیے بغیر نفحہ جیل میں حراست میں رکھا گیا تھا۔ نزل کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کو گرفتار کیوں کِیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ دس دن پہلے اسرائیلی گارڈ مائیکرو فون اور سپیکر لے کر ان کے قید خانے میں آئے اور انھیں اشتعال دلانے کے لیے چیخ کر ان کا نام لینے لگے اور تالیاں بجانے لگے۔
انھوں نے بتایا ’جب انھوں نے دیکھا کہ ہم ردعمل نہیں دے رہے تو انھوں نے ہمیں مارنا شروع کیا۔ انھوں نے ترتیب بنائی بوڑھے قیدیوں کو پیچھے بھیجا اور نوجوانوں کو آگے لے آئے۔
’انھوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ میں اپنے سر کا تحفظ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ میرے ہاتھ پیر توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
پیر کو جب نزل کی رہائی ہوئی تو رام اللہ میں فلسطینی ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا تھا۔ ان کے گھر والوں نے ہمیں ان کے ایکس رے اور میڈیکل رپورٹس دکھائیں جو ہم نے برطانیہ کے دو ڈاکٹروں کو دکھائیں جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں ہاتھوں میں ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔
نزل کہتے ہیں کہ سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی جیلوں میں گارڈز کا رویہ تبدیل ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ گارڈز انھیں لاتیں مارتے، چھڑیاں استعمال کرتے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک گارڈ نے ان کے منھ پر اپنا پاؤں رکھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’وہ اپنے کتوں کے ساتھ اندر آئے، انھوں نے کتوں کو ہم پر حملہ آور ہونے دیا اور پھر ہمیں مارنا شروع کر دیا۔‘
’انھوں نے ہمارے میٹرس واپس لے لیے، ہمارے کپڑے، ہمارے تکیے بھی اور ہمارا کھانا فرش پر پھینک دیا۔ لوگ بہت خوفزدہ ہو گئے تھے۔‘
انھوں نے مجھے اپنی کمر اور کندھے پر اس تشدد کے نتیجے میں ملنے والے نشانات دکھائے۔
وہ بتاتے ہیں ’جس کتے نے مجھ پر حملہ کیا اس نے بہت تیز دھاروں والی تھوتھنی (مُزل) پہنی ہوئی تھی۔ اس کی تھوتھنی اور پنجوں نے میرے پورے جسم پر نشان چھوڑ دیے۔‘
فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کے سربراہ عبداللہ الزغری نے ہمیں بتایا کہ قیدیوں نے ساتھی قیدیوں کے منھ اور جسم پر تشدد ہوتے دیکھا اور انھوں نے یہ الزام بھی سنا ہے کہ گارڈز نے ہتھکڑی لگے قیدیوں پر پیشاب کیا۔
ہم نے اسرائیلی محکمہ جیل سے ان الزامات پر تبصرہ مانگا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام قیدیوں کو قانون کے مطابق زیر حراست رکھا گیا اور انھیں حقوق حاصل تھے۔
لمیٰ خطر کو اس ہفتے رہا کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر انھوں نے اپنی ویڈیو شائع کی جس میں انھوں نے باتیا کہ اکتوبر کے اواخر میں جب انھیں حراست میں لیا گیا تھا تو اس وقت ایک انٹیلیجینس کے افسرنے انھیں ’ریپ کی دھمکی‘ دی تھی۔
انھوں نے ویڈیو میں بتایا ’مجھے ہتھکڑی لگائی گئی اور آنکھوں کو پٹی سے باندھ دیا گیا۔ انھوں نے مجھے ریپ کی دھمکی دی۔۔۔ مجھے واضح ہو گیا تھا کہ ان کا مقصد مجھے ڈرانا ہے۔‘
لمیٰ خطر نے ٹیلیفون کے ذریعے ہمیں بتایا کہ ان کے سمیت دیگر خواتین قیدیوں کو ریپ کی دھمکی دی گئی۔ اور دامون جیل میں قیدیوں پر آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملوں کے بعد زیر حراست فلسطینی قیدیوں کی ہلاکت کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اُس دن سے چھ قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے اس موضوع سے متعلق ہمارے سوالوں کا براہ راست جواب نہیں دیا لیکن انھوں نے بتایا کے گذشتہ ہفتوں میں چار مختلف تاریخوں میں چار قیدی ہلاک ہوئے اور محکمہ جیل کو ان ہلاکتوں کی وجہ معلوم نہیں ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)