اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جاری تنازع کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے عرب ممالک کی حکومتوں کے لئے شرمندگی کی صورت حال پیدا کردی ہے، جنہوں نے حالیہ دنوں میں تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی سمت میں قدم بڑھائے تھے۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان، ان تمام ممالک نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ یہ معاہدے ‘’ابراہیم ایکارڈز‘ کے نام سے مشہورہوئے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین موجودہ کشیدگی نے ان تمام مشہور معاہدوں کو خطرے کی صورت حال میں ڈال دیا ہے۔
جہاں ایک جانب غزہ کی پٹی میں لڑائی زوڑ پکڑ رہی ہے ، وہیں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان رشتوں کی گرم جوشی کو اب عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا جائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے آخری مہینوں میں ہوئے ان’ ابراہیم ایکارڈز‘ کو خوب پذیرائی ملی تھی، یہ دیکھا گیا کہ کئی عرب ممال نے نہ صرف اسرائیل کے ساتھ اپنے رشتوں کو باضابطہ شکل دی بلکہ انہوں نے کئی ایشوز پر غیر معمولی تعاون کی سمت بھی قدم اٹھائے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لئے کشمکش کی صورتحال
اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے والے عرب ممالک نے سلامتی اور انٹلیجنس معلومات کے معاملے پر تعاون پر اتفاق کیا تھا۔
واشنگٹن میں ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے چند ہفتوں کے اندر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے چیف کا خلیجی ممالک میں غیرمعمولی خیرمقدم کیا گیا۔ کچھ سال پہلے تک اس صورتحال کا تصور کرنا ناممکن تھا۔
لیکن اسرائیل اور فلسطینی عوام کے مابین آج کی صورتحال متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لئے انتہائی کشمکش کی صورتحال کا باعث بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے اپنے عوام کو اسرائیل کے ساتھ رشتے کو معمول پر لانے کے فوائد بتائے تھے ۔ ان ممالک نے اپنے لوگوں سے کہا تھا کہ اسرائیل کو ساتھ لینے سے کاروبار ، سیاحت، میڈیکل ریسرچ ، گرین اکنامکس اور سائنسی ترقیات جیسے سیکٹر میں ترقی کا راستہ کھلے گا۔
لیکن غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی بمباری کی ویڈیو فوٹیج ٹی وی پر چوبیس گھنٹے ان ممالک میں دکھائی جارہی ہے ، مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کو بے گھر ہونے کا خوف ستا رہا ہے اور گزشتہ دنو شہر کی الاقصیٰ مسجد کے احاطہ میں اسرائیلی فورسز کا آنا ، یہ وہ باتیں ہیں جو عرب ممالک کو پریشان کررہی ہے۔