تحریر: مسعود جاوید
کہا جاتا ہے کہ مؤرخ،مصنف، صحافی ، ادیب اور شاعر غیر جانبدار ہوتے ہیں اور سماج میں رونما ہونے والے واقعات، حادثات، لوگوں کی حصولِ یابیوں اور خامیوں کا جیسا مشاہدہ کرتے ہیں من و عن ویسا ہی صفحہ قرطاس پر اتار دیتے ہیں۔ غیر جانبداریت ہی مصداقیت کی مہر ہوتی ہے۔ تاہم کسی بھی مؤرخ و مصنف کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی لکھی باتیں صد فیصد مکمل طور پر غیر جانبدارانہ ہے۔ انسان کا ذاتی رجحان کسی نہ کسی درجہ میں لکھنے والے کے اعصاب پر حاوی ہوتا ہے۔
ہندوستان کی آزادی میں علی العموم مسلمانوں کا اور بالخصوص علماء کی جو قربانیاں ہیں اسے مخصوص نظریات کے حامل مفکرین، مؤرخین، مصنّفین ادباء و شعراء نظر انداز کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ درسی کتابوں میں ان کا ذکر وقت کے ساتھ ساتھ کم سے کم تر ہوتا گیا۔
مخصوص فرقہ پرست نظریات والوں نے اسلام اور مسلم دشمنی میں یہ روش اختیار کی تو مارکسی مؤرخین و ادباء و شعراء نے مذہب بیزاری کی بنیاد پر ایسا کیا۔
ماضی میں جو ہوا وہ ہوا، آج بھی علماء اور مسلم دانشوروں کے درمیان خلیج باقی ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں کم از کم مسلم مجلس مشاورت گاہے بگاہے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتا تھا جہاں مسلمانوں کے اہم مسائل بالخصوص کسی برننگ ایشو پر ملی تنظیموں کے سربراہان یا مؤقر نمائندگان ، مسلم مسائل کے حل کے لیے متفکر ممبران پارلیمنٹ، ریٹائرڈ جسٹس حضرات اور دیگر دانشوروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھا جاتا تھا، وفد تشکیل دی جاتی تھی وزیراعظم یا ؍اور متعلقہ وزراء سے ملاقات کر کے میمورنڈم پیش کیا جاتا تھا مین اسٹریم میڈیا میں اس کی خبر شائع ہوتی تھی اس طرح حکومت کے ریکارڈ میں مسلمانوں کی شکایت درج ہوتی تھی۔ مسلمانوں کے اپنے اخبارات ہوتے تھے جن میں ایسے موضوعات پر اداریہ لکھے جاتے تھے جس کا وزیر اعظم آفس میں نوٹس لیا جاتا تھا۔ جب مہذب دنیا میں جہاں جہاں جمہوری نظام ہے وہاں اپنی شکایتیں درج کرانے کے یہی چینلز ہوتے ہیں تو پچھلے چند سالوں سے ملی سربراہوں نے ان چینلز کا استعمال کیوں ترک کر دیا ؟
جس طرح ’ترقی پسند‘ ادباء اور روشن خیال مؤرخین مسلمانوں بالخصوص علماء کے کارناموں کے ذکر سے چشم پوشی کر کے اپنی مذہب بیزاری کو تسکین پہنچاتے رہے کم و بیش آج بھی بہت سے مسلم دانشور حضرات ملی تنظیموں کے سربراہان ( اتفاق سے ان کی اکثریت داڑھی ٹوپی والوں کی ہے) کی خدمات کو سراہنا نہیں چاہتے۔ غالباََ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے آپ کو سیاسی بالیدگی کی چوٹی پر اور د سرے فریق کو سیاسی شعور میں کم پختہ سمجھتی ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو ملت کے مفادات کے پیش نظر اپنی انا کو در کنار کر کے دونوں فریق سر جوڑ کر بیٹھتے اور اعلی ظرفی کا ثبوت دیتے۔
حال ہی میں مولانا محمود مدنی صدر جمعیت علماء ہند نے انڈیا ٹوڈے آج کل چینل پر صحافی راہل بجاج کو ایک بہترین انٹرویو دیا ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ مولانا محمود مدنی صاحب سے بعض یا کئی موضوعات پر اختلافات کے باوجود ، یہ نا انصافی ہوگی اگر مسلمانان ہند یا کم از کم ان کے اپنے طبقہ اور تنظیم کا جو موقف ہے اس بارے میں ان کی صراحت کی ستائش نہ کی جائے……… کاش ہمارے دانشور حضرات بھی مسلم ملت بالخصوص مسلم نوجوانوں کو اپنی تحریروں ، تقریروں اور میڈیا انٹرایکشن سے رہنمائی کرتے۔
جس طرح1857سے 1947تک کی جنگ آزادی میں ہماری خدمات کو فراموش کیا جا رہا ہے اور نصاب کی کتابوں ؛ ہسٹری اور سوشل اسٹڈیز سے غائب ہو رہی ہیں آنے والے دنوں میں ملک و ملت کے لئے مسلمانوں کی جو بھی خدمات ہیں ان کا ذکر تک نہیں ہوگا اگر بلا تفریق مسلک اور سیاسی وابستگی مسلمانوں کی خدمات کو اجاگر کرنے سے ہم گریز کرتے رہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)