تحریر:آشوتوش
تین ریاستوں میں ہارنے کے بعد کانگریس کا کیا ہوگا؟ کیا یہ پہلے کی طرح سکڑ جائے گا؟ کیا اس کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے؟ کیا بھارت اتحاد میں اس کا کردار کم ہو جائے گا؟ انتخابات سے پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ کانگریس تین ریاستوں مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اور راجستھان میں آسانی سے جیت جائے گی۔ مگرتینوں میں شکست کانگریس کے ماتھے پر ایک نیا ذلت آمیز داغ ہے
تلنگانہ میں کانگریس کی جیت امید کی کرن ہے۔ وہاں کانگریس نے بہت مضبوط لیڈر کے سی آر اور ان کی پارٹی کو شکست دی ہے۔ بالکل نئے لیڈر پر شرط لگائی اور یہ کامیاب رہا۔ کیا تلنگانہ کانگریس کی مستقبل کی سیاست کا خاکہ پیش کر سکتا ہے؟ کیا تلنگانہ پارٹی کو کوئی سبق سکھا سکتا ہے؟
ہندی پٹی کی شکست سے ایک بات واضح ہے۔ اس علاقے میں بی جے پی کافی مضبوط ہے اور اسے ہرانے کے لیے کانگریس کو کچھ نیا کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی یہ سمجھنا ہوگا کہ آپس میں لڑنے سے بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا۔
دراصل کانگریس کی سب سے بڑی کمزوری اندرا گاندھی کے دور کے لیڈران ہیں۔ جو درباری سیاست کی پیداوار ہیں اور نہرو گاندھی کی چاپلوسی کرکے سیاست کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ لیڈر درباری سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ قاعدے سے اشوک گہلوت کو 2018 کے اسمبلی انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جانا چاہیے تھا۔ کانگریس قیادت نے سچن ہو مار کر گہلوت کو پیدا کیا، جو کانگریس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اور 2018 کی جیت 2023 میں کانگریس کی شکست کا باعث بنی۔ سچن پائلٹ اس توہین کو کبھی نہیں بھول سکے اور نہ ہی یہ سمجھ سکے کہ زندگی ایک ہار سے ختم نہیں ہوتی۔ سب سے پہلے سچن کو گہلوت کے نام پر تیار نہیں ہونا چاہئے تھا اور اگر وہ تیار ہوگئےتو انہیں پورے پانچ سال گہلوت کے ساتھ رہنا چاہئےتھا درمیان میں بغاوت کا کوئی فائدہ نہیں۔ گہلوت کو سچن کو بھی ساتھ لے جانا چاہئے، جو انہوں نے نہیں کیا۔ اس لیے ہارنا ناگزیر تھا۔گہلوت کو یقین ہو گیا کہ وہ اپنی فلاحی پالیسیوں اور تشہیر کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا سکتے ہیں۔ جو نہ ہونا تھا اور نہ ہی ہوا۔ کانگریس کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر وہ وقت پر بڑے اور سخت فیصلے نہیں لے سکتی ہے، تو پارٹی کے لیے آگے کی راہیں تنگ ہوتی جائیں
نہرو گاندھی خاندان کو سمجھنا چاہیے کہ سیاست میں کسی کا تعلق نہیں ہے۔ درباری اس وقت تک نہرو-گاندھی خاندان کے قریب تھے جب تک وہ محسوس کرتے تھے کہ وہ انہیں جیتوا سکتے ہیں اور چونکہ انہیں لگا کہ نہرو-گاندھی خاندان کمزور ہو گیا ہے اور انہیں جیت نہیں سکتا، درباریوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا شروع کر دیا۔ صورتحال یہاں تک پہنچی کہ گہلوت ہوں یا کمل ناتھ، دونوں نے انتخابات میں نہرو-گاندھی خاندان کی بات نہ مانی۔ اس کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پوری پارٹی یہ جانتی ہے اور اس سے نہ صرف نہرو-گاندھی خاندان کمزور ہوا ہے بلکہ دیگر ریاستوں میں ان کی شبیہ کو بھی داغدار کیا گیا ہے۔ ایسے میں شکست کے بعد کانگریس کو سخت دل لے کر ہار کا ذمہ دار درباری لیڈروں کو ٹھہرانا چاہیے اور نئی قیادت کو آگے لانا چاہیے تاکہ پوری پارٹی کو یہ پیغام جائے کہ درباریوں کے دن ختم ہو چکے ہیں۔
اگر ریونت ریڈی الیکشن جیت سکتے ہیں تو کمل ناتھ اور اشوک گہلوت کی کیا ضرورت ہے؟ پارٹی کو ہر ریاست میں ریونت ریڈی جیسے لیڈروں کی ضرورت ہے۔ یعنی جو لوگ مودی راج کی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ سب کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں اور مودی کی طرح 24 گھنٹے جارحانہ سیاست کر سکتے ہیں۔
اس الیکشن میں ایک چیز جو کانگریس کو تسلی دے سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ان تینوں ریاستوں میں جہاں کانگریس ہاری ہے، اس کے ووٹ 40% سے زیادہ ہیں۔ یعنی شکست کے بعد بھی عوام کا ان پر بھروسہ ہے، وہ بی جے پی اور مودی کی پالیسیوں سے متفق نہیں، وہ ہندوتوا کو ملک کے لیے اچھا نہیں سمجھتے۔ یہ ووٹر اب بھی امید کے ساتھ کانگریس کی طرف دیکھ رہا ہے
(بشکریہ ستیہ ہندی ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)