تحریر:مسعودجاوید
الن ایک ایسا ادارہ ہے جو بیک وقت تعلیمی خدمت بھی انجام دے رہا ہے، خود کے لئے باوقار بہت منفعت بخش روزگار بھی اور دوسروں کے لئے بھی روزگار مہیا کر رہا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ آخر ہمارے لوگوں کی نگاہ سے ایسے انویسٹمنٹ کے مواقع اوجھل کیوں رہتے ہیں جبکہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے وحی نازل ہوئی اس کی آیت یعنی قرآن مجید کی پہلی آیت ہی اقرأ یعنی پڑھو ہے۔ راجستھان کے شہر کوٹہ میں ویسے تو دسیوں کوچنگ سنٹر ہیں لیکن میڈیکل کے NEET اور انجینئرنگ کے JEE اور IIT کے لئے ایک نام اور ایک تعلیمی مرکز جو پورے ہندوستان میں یکساں طور پر مشہور ہے اور جس کے بچے ہر سال میڈیکل اور انجینئرنگ کے مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب ہونے والوں کی فہرست میں نمبر ون سے ٹین پر ہوتے ہیں اس کا نام ہے الین کیریئر انسٹیٹیوٹ Allen Career Institute. اس سال اس انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لینے والوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ طلباء و طالبات ہیں۔
صبح آٹھ بجے ، دو بجے دوپہر اور رات ساڑھے آٹھ بجے اس تعلیم آباد کا منظر آپ کے دل کو مطمئن کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے بچے اور بچیاں تعلیم کے تئیں کافی بیدار ہیں۔ پرندوں کے جھنڈ کی طرح ہر طرف ایک لباس / یونیفارم میں لڑکے اور لڑکیوں سے سڑکوں پر جام لگ جاتا ہے ۔طلباء وطالبات کے سامنے ان کا ہدف اتنا واضح ہوتا ہے کہ وہ ہر طرح کی لایعنی حرکتوں سے دور ہاسٹل / پی جی / ریزیڈنسی سے سنٹر اور سنٹر سے رہائش گاہ۔ عام طور پر سڑکوں کے کنارے گپ شپ نہیں، چائے خانوں/ ریسٹورانٹ میں ازدحام نہیں اور دکانوں پر بھیڑ نہیں۔ میں نے اپنے صاحبزادے کو یہ سب دیکھانے کے بعد کہا کہ اگر ایسا جنون passion ہے تو یہاں داخلہ لو ورنہ مقابلہ جاتی امتحانات جس میں نہ ہوں وہاں داخلہ لو۔۔۔۔۔ ambition انسان کو چیلنج قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ لائف میں کسی چیز کی امبیشن نہیں تو ایک ڈل لائف ہے ۔ روٹین ۔۔
صبح اٹھ کر کھانا پینا اس کے بعد ملازمت یا تجارت کی محدود راہ پر چل کر کام کرنا اور واپس آ کر کھا پی کر سو جانا پھر کل صبح وہی روٹین ورک ! راجیش مہیشوری نامی شخص نے اپنے دل میں ایک امبیشن پال رکھا تھا۔ اس کا امبیشن کچھ کر کے دکھانے کا تھا۔ ١٩٨٨ میں اس نے سائنس کوچنگ کے لئے الن کو فقط ٨ طالب علموں سے شروع کیا تھا ۔ اس کے بعد اس سے بایولوجی کے ممتاز پروفیسر کے جی ویشنو وابستہ ہو گئے اور اس طرح اس سنٹر میں فزکس ، کیمسٹری ، بایولوجی اور میتھس کی کوچنگ کلاسس ہونے لگیں۔ راجیش مہیشوری کے ساتھ ان کے تین اور بھائی جڑ گئے اور یہ ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہوا آج اس مقام پر ہے کہ اس سال اس ادارے میں تقریباً دو لاکھ طلباء نے داخلہ لیا ہے۔ اس لئے کہ کامیابی کا دوسرا نام الن سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ یہاں تو اور بھی کوچنگ انسٹیٹیوٹ ہیں بلکہ پورے ہندوستان میں متعدد کوچنگ انسٹیٹیوٹ ہیں ۔ 10,000 دس ہزار سے زیادہ ٹیچرز اور ہزاروں اسٹاف دن رات اپنے مشن میں یکسوئی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔
دوستانہ ماحول اور کلاس روم کے باہر دس بارہ اساتذہ صرف اس لیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کسی کو کلاس میں کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی ہو تو اسے الگ سے یہاں اس کا doubt clear کیا جائے تاکہ جو کچھ وہ پڑھ رہا ہے اور جو کچھ صحیح ہے اس کے بارے میں اس کا کونسیپٹ کلیر ہو۔ الن کے مطابق اپنے قیام سے لے کر اب تک اس ادارہ نے 25 لاکھ لوگوں کو آئی آئی ٹی، ان ای ای ٹی اور جے ای ای کے لئے ٹرینڈ کیا ہے۔ یہ تو ہوئی بات تعلیمی خدمات اور اپنا اور اپنی فیملی چاروں بھائیوں اور ان کے بیٹوں کے لئے عالیشان باعزت روزگار کی۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ اس ادارہ کی وجہ سے اس شہر کی قسمت بدل گئی ۔
شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں طلباء کرائے پر نہیں رہ رہے ہوں۔ بہت سے لوگوں نے اسی کراۓ کے مقصد کے لیے یہاں عمارتیں خرید رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں دو لاکھ طلباء ہوں وہاں ظاہر ہے کھانے پینے کے ریسٹورانٹ کے علاوہ ہزاروں میس اور ٹفن سروس ہیں۔ آٹو رکشہ اور طلباء و طالبات کی ضرورت کی اشیاء کی دکانیں ہیں۔ ہر عمارت میں وارڈن یعنی ہزاروں کی تعداد میں وارڈن کی ملازمت۔۔حاصل کلام یہ کہ اس ایک شخص کے ایک امبیشن کے نتیجے میں ایک 8 طلباء سے شروع ہونے والا کوچنگ سنٹر آج لاکھوں کو مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے ٹرینڈ کر رہا ہے اور لاکھوں لوگوں کے روزگار کا سبب بن گیا ہے۔
اس تحریر سے الن کی تشہیر مقصود نہیں ہے یہ تو اپنے لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لئے ہے کہ تعلیم اور صحت دو ایسے انویسٹمنٹ کے مواقع ہیں جہاں انسانی خدمت کے ساتھ باوقار ذریعہ معاش بھی حاصل ہوتا ہے تو ہم ان میدانوں میں انویسٹمنٹ کرنے میں پیچھے کیوں ہیں!