نئی دہلی:پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ (این ای سی) کے ذریعہ پاس کردہ قرارداد میں وارانسی ضلعی عدالت کے اس حکم کو مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق پر سنگھ پریوار کے حملوں کو مزید بڑھاوا دینے والا بتایا گیا ہے، جس میں عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ کو گیان واپی مسجد کا سروے کرنے کے لئے کہا ہے۔ عدالت کے اس حکم میں بابری مسجد حق ملکیت معاملے میں دئے گئے سپریم کورٹ کے اصول کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے، جس میں پانچ رکنی بنچ نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ اے ایس آئی کے ذریعہ آثار قدیمہ کی تحقیقات کو کسی بھی ملکیت کے معاملے میں قانون کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
عدالت کا حکم مذہبی مقامات (خصوصی شقوق) قانون، 1991 کے بھی خلاف ہے، جس میں15 اگست 1992 کو جو بھی عبادتگاہ جس حالت میں ہے، اس کی اسی حالت کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ایسا معلوم پڑتاہے کہ گیان واپی مسجد سے متعلق عدالت کی حالیہ پیش رفت بابری مسجد کے ساتھ سنگھ پریوار کے اقدامات کی ہو بہو نقل ہے، کیونکہ وہاں بھی ہندوتوا خیمے نے سب سے پہلے متنازع زمین پر آثار قدیمہ کے سروے کا عدالتی حکم حاصل کیا تھا۔ سنگھ پریوار کے پاس شہید کی جانے والی ایسی متعدد مساجد کی فہرست ہونے پر عدلیہ کی جانبداری سیکولر بھارت کے لئے سنگین خطرات پیش کر رہی ہے، جن مساجد کے بارے میں سنگھ پریوار کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے نیچے قدیم مندروں کے ڈھانچے موجود ہیں۔پاپولر فرنٹ کا یہ ماننا ہے کہ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر ملک میں سیکولرزم کی بحالی کی جانب پہلا قدم ہے۔ پاپولر فرنٹ عدالت عظمیٰ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ فوری مداخلت کرتے ہوئے ملک کی اقلیتی برادریوں کی مذہبی آزادی اور ان کے مذہبی مقامات پر جاری ان ہندوتوا حملوں اور اقدامات پر روک لگائے۔ عدالت کا یہ فیصلہ اکثریتی برادری کے مختلف طبقات اور سیاسی جماعتوں کا اصل امتحان ہوگا کہ وہ وارانسی ضلعی عدالت کی اس مداخلت کی وجہ سے آئے سماجی و سیاسی بحران پر کس ردّعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔