رانچی:(ایجنسی)
پیغمبر اسلام پر بی جے پی رہنماؤں کے متنازعہ ریمارکس کے خلاف جمعہ کو رانچی میں احتجاج اور تشدد کے دوران پولیس کی فائرنگ میں دو افراد کی موت ہوگئی۔ اس واقعے میں 20 افراد زخمی ہوئے جنہیں اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ جب این ڈی ٹی وی نے اسپتال میں داخل دو زخمیوں سے بات کی تو ان دونوں نے کہا کہ وہ احتجاج میں شامل نہیں تھے۔
جمعہ کو رانچی میں پیش آئے اس واقعہ میں 20 لوگ زخمی ہوئے جن کا علاج چل رہا ہے۔ RIMS میں داخل زخمی نوجوان افسر نے NDTV کو بتایا کہ ’میں سامان لینے بازار گیا تھا۔ اسی دوران بھگدڑ مچ گئی۔ جب وہ واپس آرہا تھا تو اسے گولی لگی۔ ہم احتجاج میں نہیں تھے۔ سامان لے کرآ رہے تھے۔ پولیس فائرنگ کر رہی تھی اور یہاں سے پتھر چل رہے تھے۔ جب اس نے وہاں سے جانے کی کوشش کی تو اسے گولی لگ گئی۔ چھ گولیاںلگی ہیںجس میں سے چار نکل گئی ہیں ۔ دو ابھی تک نہیں نکلیں ۔
افسر کے رشتہ دار سرفراز عالم نے بتایا کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ باقی گولیاں دو چار دن میں نکال لی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ افسر جلوس میں شامل نہیں تھا۔
ایک اور زخمی طوارق نے بتایا کہ میں وہاں سے آ رہا تھا۔ بھگدڑ مچی تو ہم بھی بھاگنے لگے۔ اسی دوران ہمیں بھی گولی لگ گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ احتجاج نہیں کر رہے تھے، لوگ بھاگے تو ہم بھی بھاگنے لگے۔
گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والے دونوں نوجوانوں کے اہل خانہ شدید غمزدہ ہیں۔ انہوں نے واقعہ کی تحقیقات، قصوروار اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے اور مرنے والوں کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مقتول ساحل انصاری کے بڑے بھائی محمد شعیب نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ انہیں فون پر بتایا گیا کہ ان کے بھائی کو گولی مار دی گئی ہے۔ اسے اسپتال لے گئے۔ وہاں وہ کچھ دیر تک ٹھیک تھا۔ آپریشن تھیٹر میں ڈھائی گھنٹے تک علاج چلتا رہا۔ بعد میں جب انہیں وہاں سے آئی سی یو میں لے جایا جا رہا تھا تو وہ سنگین ہو گئے۔ اس دوران اس کا دل فیل ہو گیا۔ اس نے کہا کہ ساحل سیدھا سا لڑکا تھا۔ اس کا کوئی برا ریکارڈ نہیں تھا۔ اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔
ساحل کے ایک جاننے والے اعجاز احمد نے بتایا کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا ساحل وہاں کام کرتا تھا۔ فساد شروع ہوا تو وہ گھر واپس آنے لگا۔ اسی دوران کسی نے اسے گولی مار دی۔ سوال یہ ہے کہ گولی کس نے چلائی؟ فوٹیج میں پولیس انتظامیہ فائرنگ کرتی نظر آرہی ہے۔ کسی بھی ہنگامے کو روکنے کے لیے بہت سے اختیارات ہیں۔ آنسو گیس چھوڑ سکتے ہیں، پانی کی بچھاڑیں چھوڑ سکتے ہیں، ہوا میں فائر کر سکتے ہیں۔ لاٹھی چارج کر سکتے ہیں۔ کسی شہری کو براہ راست گولی نہیں مار سکتے۔
ایک عینی شاہد محمد عمر خورجہ نے بتایا کہ وہاں پرامن احتجاج جاری تھا۔ ہنگامہ آرائی کا ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ مندر کے قریب کچھ لوگوں نے پتھراؤ کیا۔ اس پر آگے موجود کچھ بچوں نے پتھراؤ بھی کیا۔ اس کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے کوئی وارننگ نہیں دی اور لوگ بھاگنے لگے۔ اس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے فائرنگ شروع کردی گئی۔ ہجوم پرتشدد نہیں ہوا، ہجوم کو انتظامیہ نے اکسایا۔
انہوں نے کہا کہ دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسپتال میں داخل دو افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ ہماری حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کی منصفانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ مرنے والوں کے لواحقین کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔ انتظامیہ کے جو لوگ قصوروار ہیں ان پر قتل کا مقدمہ چلنا چاہیے۔
مدثر ایک 16 سالہ بچہ تھا جو کل احتجاج میں تھا۔ وہ نعرے لگا رہا تھا اور وہیں اسے گولی لگی جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔ مدثر کی والدہ نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ’’میرے بچے کو گولی ماری گئی ہے۔ اسے اوپر سے گولی ماری گئی۔ میرے بچے نے کیا غلط کیا تھا؟ میرا اکلوتا بچہ مجھ سے چھین لیا گیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اسے کیوں مارا؟
انہوں نے بتایا کہ واقعہ سے قبل مدثر ان سے فون پر بات کر رہا تھا۔ اس سے کہا تھا بھیڑ میں نہ جانا۔ انہوں نے کہا کہ ہجوم میں نہیں جاؤں گا، سائڈ میں ہوں۔ فون رکھنے کے ساتھ ہی اس کے دوست کا فون آیا کہ مدثر کو گولی لگ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ مجھے میرے بچےکا معاوضہ چاہئے ،ہمیں انصاف چاہئے۔‘
مدثر کے پڑوسی ایم ڈی یونس نے بتایا کہ انہوں نے مدثر کو وہاں جانے سے منع کیا تھا لیکن وہ نہیں مانے اور چلے گئے۔ پتھراؤ کیا گیا اور اس کے بعد اوپر سے گولیاں چلائی گئیں۔ سر میں گولی لگی۔
اس کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ بھی وہاں موجود تھا۔ بھگدڑ شروع ہوئی تو وہ آگے بڑھ گیا۔ ان کے ایک اور دوست نے بتایا کہ ’’اندھا دھند گولیاں چلی تھیں۔ ہم لوگ جلوس نکال رہے تھے۔ اس میں جانا تھا اور واپس آجانا تھا۔‘‘
جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے جمعہ کو رانچی میں مظاہروں کے دوران ہوئے تشدد کی تحقیقات کے لیے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے۔ دو رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اس میں اے ڈی جی (آپریشنز) سنجے لاٹکر اور سیاحت کے سکریٹری امیتابھ کوشل کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انہیں ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔