نئی دہلی:(ایجنسی)
رائٹ ونگ چینل سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریش چوہانکے نے 15 اپریل 2022 کو ایک بار پھر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا، انہیں مجرمانہ سازش میں ملوث قرار دیا اور اسے ’نوکری جہاد‘ کا نام دیا۔
چوہانکے نے یہ نیا تنازع اس وقت کھڑا کیا، جب ایک ہفتہ قبل 10 امیدواروں کی فہرست سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ اس فہرست میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء تھے جنہیں پون ہنس لمیٹڈ کمپنی کے اپرنٹس شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور یہ تمام امیدوار مسلمان ہیں۔
الزام یہ لگایا گیا کہ سرکاری اداروں کی طرف سے ہندوؤں کو نوکریوں سے محروم رکھا جا رہاہے ۔ چوہانکے نے کہا کہ ’پون ہنس میں مسلمانوں کو 100 فیصد غیر اعلانیہ ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے۔‘
’نوکری جہاد‘ ایک من گھڑت بات ہے، جیسا کہ مبینہ طور پر دائیں بازو کے دھڑوں کی طرف سے وضع کی گئی دیگر اصطلاحات، جو ہندوؤں کی روزی روٹی کے ساتھ سازش کر کے مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کو ترجیح دینے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
دہلی فسادات کے دوران موج میں ہندوتوا کی بھیڑ کی قیادت کرنے والی اور پتھرا ؤ کرتے ہوئے ویڈیو میں قید ہوئی راگنی تیواری کی قیادت میں گزدشتہ دنوں دہلی میں پون ہنس کے دفتر کے باہر احتجاج کیا گیا ۔
سریش چوہانکے نے سدرشن چینل پر اپنے ’نوکری جہاد‘ شو کے ٹیزر میں پوچھا، ‘’کیا کوئی سرکاری کمپنی صرف مسلمانوں کو ملازمت دے سکتی ہے؟ کیا پون ہنس میں مسلمانوں کے لیے 100فیصد ریزرویشن ہے؟
ٹیزر میں اس کے بعد کے مناظر میں تیواری اور دیگر کو پون ہنس کے دفتر کے گیٹ پر چڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ چوہانکے انہیں ’شیرنیاں‘ اور ‘’باگھن ‘کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔
تیواری اور دیگر کو گیٹ پر مسلمانوں اور جامعہ کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تیواری کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’پیسہ شری رام کا ہے اور فائدہ چسلام کا ہے‘۔
اپنے لائیو ویڈیو میں ایک اور شخص کہتا ہے، ‘مودی اور یوگی کی مخالفت کرنے والے جامعہ کے دہشت گردوں کو کیوں نوکری دیں؟ ہم یہ یقینی کریں گے کہ مسلمانوں کو باہر نکالا جائے اور ہندوؤں کو روزگا ملے ؟
دی وائر نے سدرشن اور ہندوتوا مظاہرین کے دعوؤں کی چھان بین کی اور انہیں جھوٹا پایا۔
دی وائر کے ذریعے حاصل کردہ سرکاری دستاویزات کے مطابق، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پون ہنس کے ساتھ شراکت میں بیچلر آف سائنس ان ایروناٹکس کورس شروع کیا تھا۔ اس کورس میں دو بیچز (ایویونکس اور میکینکل) میں کل 60 طلباء ہیں، جنہیں دونوں کورسز میں تیس پینتیس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
یہ ایک سیلف فنانسنگ کورس ہے جس کی سالانہ فیس 1.3 لاکھ روپے ہے، جس میں سے صرف 30 فیصد یونیورسٹی اور باقی پون ہنس کو جاتا ہے۔
ایک امیدوار نے دی وائر کو بتایا کہ انتخاب کا معیار چھ سمسٹروں میں امیدوار کے مجموعی نمبروں اور امیدوار کی طرف سے کلیئر کیے گئے ڈی جی سی اے (ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن) کے ماڈیولز کی تعداد پر مبنی ہے۔ اس سال انٹرویو کے لیے کل 30 طلبہ کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔
دی وائر کو معلوم ہوا ہے کہ ان 30 طلباء میں سے چار (دو مسلمان اور دو ہندو) ذاتی وجوہات کی بناء پر دستبردار ہو گئے۔ باقی 26 امیدواروں میں سے 10 امیدواروں (ہر بیچ سے پانچ) کا انتخاب کیا گیا۔ بعد ازاں انٹرویو میں کامیاب ہونے والے ایک مسلمان طالب علم نے بھی ذاتی وجوہات کی بنا پر شرکت نہیں کی۔
دی وائر نے ایویونکس برانچ کے دو ہندو امیدواروں سے اس تنازع پر ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔
ان امیدواروں میں سے ایک، شبھ سولنکی نے کہا، ’میرے دوست دیپت گوئل اور میں ہمارے بیچ کے ٹاپرز میں سے ایک ہیں۔ ہم ذاتی وجوہات کی بنا پر اس سے باہر ہو گئے۔ میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہا ہوں۔ انتخابی عمل مکمل طور پر شفاف اور میرٹ پر مبنی تھا۔ اقلیتی ادارہ ہونے کی وجہ سے فطری طور پر یہاں مسلم طلبہ کی تعداد زیادہ ہے۔ جامعہ میں ایک ہندو طالب علم کی حیثیت سے مجھے کسی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا، میرے تمام دوست مسلمان ہیں۔‘