پریاگ راج:
میرٹھ کے ضلع اسپتال سے ایک مریض کے لاپتہ ہونے پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے پیر کو تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر میرٹھ جیسے شہر کے میڈیکل کالج میں علاج کی یہ حالت ہے تو چھوٹے شہروں اور گاؤں کے تعلق سے ریاست کی پورا طبی سسٹم رام بھروسے ہی کہا جاسکتا ہے ۔
جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس اجیت کمار پر مشتمل بنچ نے ریاست میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق دائر پی آئی ایل کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے۔
عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 22 اپریل کو شام 7-8 بجے ، 64 سالہ مریض سنتوش کمار ٹوائلٹ گیا، جہاں وہ بے ہوش ہوکر گرگیا۔ جونیئر ڈاکٹر تولیکا اس وقت نائٹ ڈیوٹی پر تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سنتوش کمار کو بے ہوشی کی حالت میں اسٹریچر پر لایا گیا اور انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی گئی ، لیکن ان کی موت ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق ، ٹیم انچارج ڈاکٹر انشو کی نائٹ ڈیوٹی تھی، لیکن وہ موجود نہیں تھے۔ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر تنشک اتکرش نے لاش کو اس جگہ سے ہٹوا دی، لیکن اس شخص کی شناخت کے لیے تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔وہ آئیسولیشن وارڈ میں اس مریض کی فائل نہیں ڈھونڈ سکے ۔ اس طرح سے سنتوش کی لاش لاوارث مان لی گئی اور نائٹ ڈیوٹی پر مامور ٹیم بھی اس کی شناخت نہیں کرسکی ، اس لئے لاش کو پیک کرکے اسے نمٹا دیا گیا۔
اس معاملے میں عدالت نے کہا کہ اگر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں اور ڈیوٹی کرنے میں لاپروائی دکھاتے ہیں تو یہ سنگین جرم کا معاملہ ہے کیونکہ یہ معصوم لوگوں کی زندگی سے کھلواڑہے ۔ ریاستی سرکار کو اس کے لیے ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔
پانچ اضلاع کے ضلع مجسٹریٹس کے ذریعہ پیش کی گئی رپورٹ پر عدالت نے کہاکہ ہمیں کہنے میں ذرا بھی جھجھک نہیں ہے کہ شہری علاقوں میں طبی ڈھانچہ بالکل ناکافی ہے اور گاؤں کے کمیونٹی میڈیکل سینٹر میں زندگی بچانے والے آلات کی ایک طرح سے کمی ہے ۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو دیہی آبادی کی جانچ بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کا ریاستی حکومت کو حکم دیا اور ساتھ ہی مناسب طبی سہولیات مہیا کرانے کی ہدایت دی۔
ویکسینیشن کے معاملے پر عدالت نے مشورہ دیا کہ مختلف مذہبی تنظیموں کو چندہ دے کر انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل کرنے والے بڑے کاروباری گھرانوں کو ویکسین کے لئے اپنی رقم عطیہ کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے۔
میڈیکل انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے عدالت نے حکومت سے یہ امکان تلاش کرنے کو کہا کہ تمام نرسنگ ہومز کے پاس ہر بیڈ پر آکسیجن کی سہولیات موجود ہوں۔ عدالت نے کہا کہ 20 سے زیادہ بستر والے ہر نرسنگ ہوم و اسپتال کے پاس کم سے کم 40 فیصد بیڈ آئی سی یو کے طور پر ہونے چاہئے اور 30 سے زیادہ بیڈ والے نرسنگ ہوم کو آکسیجن پروڈکشن پلانٹ لگانے کا حکم دیا جانا چاہئے۔