عبدالمالک بلندشہری
آسمان علم و ادب کے درخشاں ستاروں کے ٹوٹنے کا سلسلہ پورے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں جہاں مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی ممتاز ہستیوں نے دنیا دوں سے منھ موڑا ہے وہیں خود مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ممتاز شاعر مولانا رئیس الشاکری ندوی کی وفات کے معا بعد ندوۃ العلماء ہی کے معتمد مالیات جناب اطہر حسین بھی داغ مفارقت دے گئے۔ ابھی ان صدموں سے پوری طرح سنبھلے بھی نہ پائے تھے کہ ایک اور غم انگیز خبر سماعت سے ٹکرائی اور بدن پر لرزہ طاری کرگئی۔ کئی ساعتوں تک تو یقین ہی نہ ہوا۔ انتہائی تکلیف دہ کیفیت میں اس وحشت اثر کی تصدیق کی کہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے نائب ناظم اور خانوادہ حسنی کے ممتاز فرد مولانا سید حمزہ حسنی ندوی بھی کاروان رفتہ میں شامل ہوگئے۔مولانا حمزہ ندوی خانوادہ حسنی کے عظیم فرد تھے۔ ان کے والد مولانا محمد ثانی حسنی ندوی اپنے عہد کے ممتاز قلم کار اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے خلیفہ اجل تھے۔ ان کی ولادت 1950 میں ہوئی، مکمل تعلیم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔ ندوہ کے دوران قیام مفکر اسلام سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی سفر و حضر میں خدمت کی اور ان کی خصوصیات اپنے اندر جذب کیں۔ وہ والد ماجد کی وفات کے بعد سے لے کر اپنے انتقال تک اردو رسالہ ماہنامہ رضوان کے مدیر میں رہے تھے جس میں ان کی اصلاحی نگارشات تسلسل سے شائع ہوتیں اور لوگوں کو ان مضامین سے فائدہ ہوتا۔ ان کی طبیعت بنیادی طور پر تصوف و سلوک کی طرف مائل تھی۔ اس سلسلہ میں وہ مولانا زکریا کاندھلوی کے میکدہ روحانی کے بادہ خوار تھے۔ ان کو اپنے دور کے بزرگوں سے بھی بڑی محبت و عقیدت تھی۔ مولانا احمد پرتابگڑھی قدس سرہ، مولانا قاری صدیق باندوی قدس سرہ اور مولانا ابرار الحق ہردوئی سمیت متعدد بزرگوں سے بھی ربط تھا۔ حمزہ حسنی ص کے اندر پچپن سے ہی اپنے بڑوں کی عظمت کا احساس پنہاں تھا۔ اسی وجہ سے وہ ہمہ وقت آن کی خدمت کرنے اور انھیں راحت پہنچانے کے مواقع تلاش کرتے تھے۔ تبلیغی جماعت کے اہم ذمہ دار صوفی انعام اللہ لکھنوی کے مرض وفات میں انھوں نے ان کی بہت ہی مخلصانہ خدمت کی تھی، صوفی ص آپ کی خاندانی خصوصیات اور روحانی کمالات سے خوب آگاہ تھے اسی لیے انھوں نے انھیں اپنی جانب سے سلاسل اربعہ میں اجازت و خلافت سے نوازا تھا۔ مولانا حمزہ نے ان کے وصال کے بعد خود کو اپنے سسر اور خاندان کے بڑے و سرپرست مولانا سید رابع حسنی ندوی کے تابع رکھا اور ان کی رہبری و رہنمائی میں دینی و انتظامی خدمات انجام دیں۔ مولانا رابع حسنی نے بھی ان کو اپنی طرف سے مجاز بیعت بنایا تھا۔ حمزہ حسنی ص نے بھی مولانا نثار الحق ندوی کو اپنی طرف سے مجاز بناکر سلسلہ کی اشاعت کا کام کیا تھا۔وہ عرصہ تک ندوۃ العلماء کے مرکزی ذمہ داروں میں شامل رہے۔
ایک عرصہ تک ناظر عام کے منصب پر فائز رہے پھر مفتی ظہور عالم ندوی سابق مفتی اعظم و نائب ناظم ندوہ العلماء لکھنؤ (١٩٢٧-٢٠١٦) کے وصال کے بعد نائب ناظم کے منصب پر انھیں فائز کر دیا گیا تھا۔ مرحوم بنیادی طور پر ایک خاموش مزاج اور کم آمیز بزرگ تھے۔ انتظامی معاملات کی تحلیل سے زیادہ انفرادی اصلاح پر توجہ دیتے جس کا اثر وہاں کے ماحول پر بھی ہوتا تھا۔ان کی وفات سے بڑا قلبی صدمہ ہوا، خدا سے دعاء ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے سسر اور امت کے جلیل القدر بزرگ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ کو صحت و عافیت سے رکھے ان کا سایہ دراز فرمائے۔